بااختیار لوگوں کی تکون

اسلام آباد مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ تینوں کا گڑھ ہے ان اداروں کی بلند و بالا اور پر شکوہ عمارات میں براجمان عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں یہ تکون وہ محور ہے کہ جس کے ارد گرد اس ملک کا پورا نظام چلتا رہتا ہے اگر تو اس تکون کے تینوں کونوں میں بیٹھے ہوئے ارباب بست و کشاد کے درمیان ربط موجود ہو اور وہ ان حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے فرائض نبھا رہے ہوں کہ جن کا تعین آئین پاکستان میں کر دیا گیا ہے تو اس صورت میں پھر یہ ملک کیوں نہ گل گلزار ہو جائے اس ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ اکثروبیشتر اداروں نے آپس میں اس تعاون اور کوآرڈینیشن کا مظاہرہ نہیں کیا کہ جو آئین پاکستان اور اس ملک کے عوام ان سے توقع رکھتے تھے جس کے نتیجے میں وطن عزیز میں مسائل بڑھتے جارہے ہیں

 اس ملک کو عالم وجود میں آئے ہوئے 73برس ہو چکے پر آج تک ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ اس ملک کے لیے کون سا نظام حکومت بہتر ہوگا پارلیمانی نظام حکومت یا صدارتی نظام حکومت ‘ خدا کرے کہ موٹروے کے سانحے کے بعد ملک بھر میں اس قسم کا سنگین جرم کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا جو ذکر ہو رہا ہے اسے قانونی شکل دینے میں ریاست کے یہ تینوں بڑے مندرجہ بالا ادارے آپس میں کوآرڈینیشن اور تعاون کا مظاہرہ کریں اور متفقہ طور پر ایک ایسا قانون عمل میں لایا جائے کہ جس سے ہمارا معاشرہ اس لعنت سے پاک ہو سکے ‘ چودھری شجاعت حسین بڑے جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں انہوں نے ضیاالحق کے وقت میں ہونے والے اسی قسم کے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ جو قانون کی کتابوں میں پپو کیس کے نام سے مشہور ہے اور کہا کہ سابق صدر نے تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی قسم کے ایک زیادتی کیس میں سخت ایکشن لیا تھا اور پھانسی کے بعد مجرم کی لاش کو چوبرجی چوک لاہور میں لٹکا نے کا فیصلہ کیا تاکہ گزرتے لوگ اس سے عبرت پکڑ سکیں ایسے کیسز میں یہی مسئلے کا حل ہے

 انہوں نے اپنے ایک بیان میںہیومن رائٹس کے بارے میں ایک بڑے پتے کی بات کی اور کہا کہ جب میں وزیر داخلہ تھا تو ہیومن رائٹس کی ایک ٹیم میرے پاس آئی اور اعتراض اٹھایا کہ پاکستان میںہیومن رائٹس کے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس ٹیم میں ایک نوجوان لڑکی بھی تھی میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی عمر تو نہیں پوچھ سکتا لیکن کیا آپ کی کوئی چھوٹی بہن ہے جس پر اس لڑکی نے کہا کہ میری ایک سولہ سال کی چھوٹی بہن ہے میں نے کہا کہ برا نہ منایئے میری بات کا جواب دیں کہ اگراس کا طرح کا واقعہ آپ کی بہن کے ساتھ پیش آئے اور مجرم بعد میں اس کو گولی مار کر بھاگ جائے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا اس سوال پر اس لڑکی کا رنگ سرخ ہو گیا اور وہ کوئی جواب نہ دے سکی دنیا میں بعض ایسے ممالک بھی ہیں کہ جہاں زیادتی کے مجرم کو نا مرد کرنے کی سزا دی جاتی ہے ان میں انڈونیشیا چیک جمہوریہ اور یوکرائن شامل ہیں اور نائجیریا میں بھی اسی قسم کی سزا کے بارے میں سوچا جا رہا ہے یہ عمل جراحی کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے ‘ چین میں جنسی بے حرمتی کی سزا موت ہے شمالی کوریا میں ایسے مجرموں کو گولی سے اڑا دیا جاتا ہے افغانستان ایران اور مصر میں جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہے چین میں نا مرد کرنے کی بھی سزا دی جا رہی ہے یاد رہے جراحی کے ذریعے ایسے مجرموں کو نا مرد کرنے کا عمل قدیم رومی دور میں بھی موجود تھا ۔