جواب طلب سوالات

 کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کو دو وقت کی روٹی‘ بیماری کی صورت میں دوائی‘ سر چھپانے کیلئے اپنی چھت ‘آمدورفت کیلئے سواری اور ان کے بال بچوں کے واسطے معقول تعلیم کا بندوبست قصہ کوتاہ زندگی کی بنیادی ضروریات کیسے فراہم کر سکتی ہے اگر اس کے پاس یہ چیزیں مہیا کرنے کیلے مناسب وسائل نہ ہوں کیا اگر کسی بھی ریاست کے تمام افراد اپنے اپنے حصے کے واجبات جمع کروائیں تو ریاست کے پاس اتنا پیسہ جمع ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مندرجہ بالا ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر سکے اگر کوئی فرد اپنے حصہ کے واجبات جمع نہیں کروا رہا تو کیا اس سے ریاست بزور شمشیرانہیں وصول کر سکتی ہے اگر اس سے بھی کام نہیں بنتا تو کیا اس صورت میں ریاست مالداروں پر کسی اور قسم کا اضافی ٹیکس لگا سکتی ہے اس قسم کے کئی سوالات یقینا ہر حساس اور ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں اٹھتے ہیں اور وہ ان کے جوابات مانگتا ہے


جہاں تک خالی خولی باتوں کا تعلق ہے تو ان میں تو بلا شبہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ بھلے ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہے یا حزب اختلاف سے باتوں کے تو بلاشبہ دھنی اورغازی ہیں پر جہاں تک عمل کا تعلق ہے وہ ان باتوں اور دعووں کے بالکل سوفیصد برعکس ہوتاہے دراصل اگر ہماری پارلیمنٹ میں غریب پرور عوام دوست اور پڑھے لکھے اراکین کی اکثریت ہوتی تو وہ فضول اور لاحاصل قسم کے موضوعات پر بحث و مباحث پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے فلور پر مندرجہ بالا سوالات کے جوابات ڈھونڈتے اور پھر علم اور تجربے کی روشنی میں ان کے جوابات کو عملی جامہ پہناتے اور اس کے لیے متعلقہ قوانین میں ترمیم کرتے یا بصورت دیگر نئے قوانین تخلیق کرتے افسوس اس بات کا ہے کہ ان کا ایجنڈا ہی کچھ اور ہے ۔ہمارے معاشرے میں انتشار خلفشار اور بے چینی کی اور بھی کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں اگر جواں سال افراد کی تعداد بڑھ جائے اور ان کو بے روزگاری کا سامنا ہو کہ جس طرح ہماری نئی نسل کو درپیش ہے تو اس سے ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور وہ پھر اپنی ناکامی کا غصہ مختلف اشکال میں معاشرے پر نکالتے ہیں‘ یہاں پر ہم ایک قصہ در ج کرنا چاہتے جو حسب حال ہے سمندر میں ایک پانی کا جہاز جا رہا تھا ہوا یوں کہ اس کے نچلے عرشے میں جو مسافر سفر کر رہے تھے


 ان کے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا اور ان کے ساتھ جو چھوٹے بچے تھے وہ پیاس کی تاب نہ لا کر چیخنے چلانے لگے چناچہ نچلے عرشے میں سفر کرنے والے مسافروں نے اوپر کے عشرے میں موجود مسافروں سے درخواست کی کہ چونکہ آپ کے پاس وافر پینے کا پانی موجود ہے آپ مہربانی کرکے تھوڑا سا ہمیں بھی دے دیں تاکہ ہم اپنے بچوں کی پیاس مٹا سکیں اوپر کے عرشے میں موجود مسافروں نے جب ان کو پانی دینے سے انکار کیا تو نچلے عرشے پر رہنے والے لوگوں نے ان کو دھمکی دی کی کہ اگر ان کو پانی فراہم نہ کیا گیا تو ان سے اب چونکہ اپنے بچوں کی آہ و پکار نہیں دیکھی جاتی وہ جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں گے خود بھی ڈوب جائیں گے اور ان کو بھی ڈبو دیں گے اور پھر وہی ہوا انھوں جہاز کے نچلے حصے میں چھید کر دیا جس سے وہ خود بھی ڈوب گئے اور اوپر کے عرشے میں رہنے والے مسافر بھیہماری اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لے اور اس سے پیشتر کہ اس کا گریبان ہو اور بھوکے عوام کے ہاتھ وہ خود ہی ان سوالات کے جوابات ڈھونڈ نکالے کہ جن کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے ۔