ہماری ترجیحات ہی غلط تھیں

اللہ کی پناہ اس ملک کی آبادی 22کروڑ 90 لاکھ ہوچکی  بالفاظ دیگر ہمارے ملک کی آبادی اب 23 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور تخمینہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ پچاس برسوں بعد اس کی آبادی 45 کروڑ ہو جائے گی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچاس سال بعد جو اس ملک کی آبادی ہوگی وہ ہم کیسے سنبھالیں گے جہاں تک معاشی عدم مساوات کا تعلق ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اس ملک کی تقریبا 2 فیصد آبادی نصف قومی دولت پر قابض ہے اٹھانوے فیصد شہری دھکے کھا رہے ہیں اور مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ٗکسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ پینے کا پانی اب کستوری بن چکا ہے اور زیر زمین پانی نایاب ہو رہاہے ملک میں پانی کی قلت کا سنگین خطرہ ہے نہ جانے ہماری کسی سیاسی پارٹی کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جا رہا اور وہ پارلیمنٹ میں اس اہم مسئلے پر بحث مباحثہ کرنے سے کیوں کترا رہی ہے ہمارے اراکین پارلیمنٹ کے پاس اس بات کے لئے تو وقت ہے کہ وہ وزیراعظم سے ملاقات کرکے ان پر یہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئیانہیں کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے جائیں ٗبھاڑ میں جائیں ملکی مسائل‘لیکن ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ ہر شہر اور علاقے میں کم لاگت اور چھوٹے آبی ڈیمو ں کی تعمیر کو اولیت دینی چاہئے جہاں بارش کے پانی کو محفوظ بنایا جاسکے اور اس طرح پانی کی قلت پر قابو پایا جاسکے ٗملک پر حکومت کرنے والوں سے کوئی کیوں نہ گلہ کرے کہ آج اس ملک میں 1300 مریضوں کے واسطے صرف ایک ڈاکٹر ہے اور ہسپتالوں میں بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے مریض کرسیوں پر بیٹھ کر ڈرپ لگواتے ہیں سندھ کا تو اتنا برا حال ہے کہ وہاں 50 فیصد کے قریب 5 برس کی عمر سے چھوٹے بچے غذائی قلت کا شکارہیں۔کسی بھی حکمران نے کل کا تو سوچا ہی نہیں اس نے صرف آج کا سوچا ہے اور وہ کام کئے ہیں کہ بس اس کا دور کسی نہ کسی طریقے سے گزر جائے ٗدور اندیشی یا لانگ ٹرم پلاننگ کے الفاظ ان کی ڈکشنری میں تھے ہی نہیں ٗہر سال ترقیاتی کاموں کے لئے کروڑوں روپے جاری کئے جاتے ہیں ٗکیا کبھی کسی نے سنجید گی سے ان ترقیاتی کاموں کا آڈٹ کیا ہے ٗتیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہیلتھ سیکٹر اور تعلیم وہ شعبے ہیں کہ جو حکمرانوں کی توجہ کے مستحق تھے پر انہیں وہ ہمیشہ نظر انداز کرتے آئے ہیں  موجودہ حکومت گزشتہ دو برسوں سے کوشش تو بہت کر رہی ہے کہ ملک کو اس معاشی بدحالی سے باہر نکالے کہ جس میں وہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے انگھوٹے تک پھنسی ہوئی ہے لیکن ایک مصیبت سے اس کی جان چھوٹتی نہیں کہ دوسری اس کے سر پر نازل ہو جاتی ہے ٗمعروف ایرانی شاعر انوری کا ایک خوب صورت شعر حسب حال ہے 
ہر بلائے کز آسماں آید۔گرچہ بر دیگرے قضا باشد
برزمین نارسیدہ می گوید……خانہ ہے انوری کجا باشد (آسمان سے نازل ہونے والی ہر مصیبت اگرچہ کسی اور کے مقدر میں ہو زمین پر نازل ہونے سے پہلے انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے) ٗانوری کے گھر کی طرح موجودہ حکومت کے سر پر قدرتی آفات یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں ٗکورونا وائرس نے ملک کی کمزور معیشت کہ جو اسے ورثے میں ملی تھی کو مزید نقصان پہنچایا ٗ اسی دوران ٹڈی دل نے ملک کی زراعت کو بھی متاثر کیا اور اس کے بعد بارشوں اور سیلابوں نے اس کا مزید حلیہ بگاڑ دیا۔قدرتی آفات کو روکنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا تاہم جامع منصوبہ بندی کے ذریعے قدرتی آفات کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے اور انسان یہی کچھ کرسکتا ہے۔