متحدہ عرب امارات اورترکی کے اختلافات

عالمی ہلچل پاکستان سے متصل خطے میں تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے سے متعلق معاہدے کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے جس پر ترکی اور ایران مشرقی وسطیٰ کے دو ایسے ممالک ہیں‘ جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل اور اِس کی تفصیلات سامنے آنے سے قبل بھی اِس کی کھل کر مذمت کی تھی اگرچہ ایران کی مخالفت تو اس کی اپنی پالیسیوں کے عین مطابق ہے ‘ مگر ترکی کا متحدہ عرب امارات پر غصہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ قریب سے اس پوری صورتحال کا تجزیہ کیا جائے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی بڑھتی ہوئی علاقائی دشمنی کا عنصر ہے‘ جس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب سلسلہ لگتا ہے جو تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔


 درحقیقت یہ دشمنی ہے جو مشرق وسطیٰ کی سیاست اور دیگر معاملات کا احاطہ کرے گی پھر یاد رہے کہ یہ کوئی نئے معاملات نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں ممالک اس خطے میں رہتے ہوئے دو الگ الگ نظرئیے رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا کوئی بھی اشارہ امارات کے لئے کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں جبکہ صدر رجب طیب اژدگان کی قوم پرست پالیسیوں اور آمرانہ جھکاو¿ کے باوجود ترکی ایک جمہوری ملک کی حیثیت رکھتا ہے ‘ اس سے پہلے ’عرب بہار‘ نامی انقلاب کی لہر آئی تھی جس نے خلیجی بادشاہتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس پوری صورتحال کو انہوں نے اپنی حکمرانی کے لئے ایک واضح خطرہ کے طور پر محسوس کیا تھا۔ سال 2016ءمیں جب ترکی میں بغاوت کی کوشش ہوئی تو انقرہ میں شکوک و شبہات بڑھ گئے تھے کیونکہ متحدہ عرب امارات نے اس بغاوت کی نہ تو کوئی مذمت کی اور اس پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔


درحقیقت یہ عمل باغیوں کی حمایت جیسا تھا۔ بس پھر اژدگان کے اشارے کے ساتھ ہی ترک میڈیا نے ایسی خبریں نشر کیں جن میں یہ الزامات عائد کئے کہ متحدہ عرب امارات نے اس کوشش میں تین ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جو ان کے بقول مصر اور سوڈان میں ردِعمل دینے والے عناصر کی حمایت ہے۔ بس تب سے ان دونوں ممالک کے درمیان حالات ابتر صورتحال سے دوچار ہیں اور آج ہم ترکی اور متحدہ عرب امارات کو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہر موقع پر ترکی کے منصوبوں کو مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگر شام کی بات کی جائے تو انقرہ اسد حکومت کا سختی سے مخالف ہے اور اس نے نہ صرف حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی تھی بلکہ بعد میں اسد کے خلاف باغی تحریکوں کی بھی حمایت کی۔ اس کے برعکس متحدہ امارات اسد حکومت کے ساتھ زیادہ ہمدرد تھا اور مبینہ طور پر کردوں کو مالی معاونت بھی فراہم کی جسے ترکی‘ امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کیا ہے


 اور یقینی طور پر ایسا ترکی کے خلاف مضبوط کرنے کے لئے کیا گیا ہوگا پھر جب 2019ءمیں ترکی نے شامی سرحد پر وائے پی جی کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا تو امارات کھل کر وائے پی جی کی حمایت میں سامنے آیا اور اس کاروائی کو ’امن کے لئے خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے الفاظ کی ایک اور سفارتی جنگ کو بڑھاوا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب قطر کے خلاف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک ہوئے تو ترکی نے قطر کا ساتھ دیا‘ یہی نہیں بلکہ وہاں امدادی سامان کے ساتھ پانچ ہزار ترک فوجی بھی روانہ کئے۔ اس بڑھتے ہوئے تنازع کا تازہ ترین مرکز لیبیا ہے جہاں متحدہ عرب امارات نے خلیفہ حفتر کی حمایت میں اپنے قابلِ ذکر خزانوں کو کھول دیا۔ وہی بے شمار تمغوں سے لیس خلیفہ حفتر جنرل جن کی نیشنل آرمی نے خلیج ریاستوں‘ مصر اور فرانس کی بھرپور مدد کے باوجود طرابلس میں مہینوں سے جاری فوجی کاروائی میں شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے حفتر کے زیرِ کنٹرول ائر بیس کے لئے درجنوں خفیہ پروازیں بھریں جن سے وہ جدید اسلحہ فراہم کرتا تھا۔


 یہاں ہم ایک بار پھر ترکی کو مخالف فریق کی طرف دیکھتے ہیں جو اقوامِ متحدہ سے منظور شدہ گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ کی حمایت کرتا ہے۔ ایسا صرف ممالک کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کے لئے نہیں ہے کہ وہ نظریاتی طور پر اس کے اتحادی بن سکیں کیونکہ ترکی کے لئے لیبیا بطور دوست بحیرہ¿ روم میں مزید رسائی دیتا ہے اور اگر ترکی کچھ چاہتا ہے تو متحدہ عرب امارات اس کو روکنے کی پوری کوشش کرے گا بالکل ایسے ہی جیسے بحیرہ¿ روم میں ترکی اور یونان کے درمیان تازہ ترین کشیدگی میں ہم متحدہ عرب امارات کو یونان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ یہاں تک کہ یونانی فوج کے ساتھ مشترکہ تربیت کے لئے چار ایف سولہ طیاروں کو بھی بھیجا جارہا ہے۔ یہاں ترکی کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ گیس اور توانائی کی ترسیل کررہا ہے اور اسے یورپی طاقتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے خصوصاً فرانس کی جانب سے جس کا مقصد اپنا فائدہ دیکھنا اور ترکی کے مفادات کو کم کرنا ہے اور یہ مخالفت اسے متحدہ عرب امارات کااتحادی بنادیتی ہے۔ دوسری جانب ترکی کے پاس علاقائی اتحادیوں کی تعداد کم ہے اور اسے آنے والی دہائی میں اپنی حکمت عملی کو بہت محتاط رہتے ہوئے تبدیل کرنا پڑے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ضرار کھوڑو۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)