اچھے لوگوں کا انتخاب

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا یہ مطالبہ سر آنکھوں پر کہ اعلی عدالتوں کے ججوں کی تقرری کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ھونا چاہئے پر ان سے معذرت کے ساتھ نہایت مودبانہ انداز میںہم کیا یہ سوال کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ وہ کس پارلیمان کی بات کر رہے ہیں اس پارلیمان کی کہ جس کا رکن بننے کیلئے نہ کسی خاص تعلیمی صلاحیت کی ضرورت ہے اور نہ کسی اخلاقی اقدار کی۔اگر تو اس ملک کے ایک عام شہری کی سو فیصد تسلی ہو کہ اس کا رکن اسمبلی صحیح معنوں میں صادق و امین ہے اس کی ماضی کی زندگی کسی بھی لحاظ سے داغدار نہیں نہ تو وہ کسی اخلاقی جرم کا کبھی مرتکب ہواہے اور نہ اس نے کسی سرکاری ٹیکس کی ادائیگی میں کبھی ڈنڈی ماری ہے وہ کسی بھی طور پر متعصب نہیں ہے وہ لسانیت پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ کبھی فرقہ واریت میں کبھی ملوث رہا ہے تو اس صورت میں تو بے شک اعلی عدالتوں کے ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں ان کی راے لی جا سکتی ہے اور یہ بڑی ذمہ واری انہیں سونپی جا سکتی ہے


 پر خدا لگتی یہ ہے آپ ذرا اپنے دل پر اپنا ہاتھ رکھ کر یہ بتائیں کہ جس مٹی سے ہماری پارلیمنٹ کے اکثر اراکین کا ماضی کا ریکارڈ دیکھ کر اس بات کی اجازت کوئی بھی ذی شعور پاکستانی ان کو دے سکتا ہے کہ وہ اعلی عدالتوں کے ججوں کا انتخاب بھی کریں اب تک تو ہم نے دیکھا کہ اس ملک کی انتظامیہ میں پٹواری سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک اور تھانیدار سے لے کر ا یس پی تک کی پوسٹوں پر سیاسی لوگ اپنی مرضی کے لوگ اپنے منظور نظر افسروں کو لگواتے آئے ہیں اور اس وجہ سے اس ملک میں گڈ گورننس کا پھر جو حشر نشر ہوا وہ ہم سب نے دیکھا ہے الیکشن کے وقت جب امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا وقت آتا ہے تو اس وقت ریٹرننگ آفیسرز کاغذات کا باریک بینی سے مطالعہ نہیں کرتے اگر وہ الیکشن رولز کے مطابق ان کی جانچ پڑتال کریں اور اس مرحلے پر کسی سیاسی مصلحت کو اپنے کام میں آڑے آنے نہ دیں تو یقین کیجئے پچاس فیصد سے زیادہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی تو اسی وقت ہی مسترد کر دئیے جائیں اعلی عدالتوں میں ججوں کی جو براہ راست تقرری کی جاتی ہے


 اس نظام میں یقینا اصلاحات کی ضرورت ہے پر یہ کام نہایت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے یہ نہ ہو کہ عجلت میں ہم کوئی ایسا کام کر ڈالیں کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی بات ہو جائے کہ بدقسمتی سے ہماری مقننہ کے اکثر اراکین نے کوئی ایسا قابل رشک کام سر انجام نہیں دیا کہ اسے یہ فضیلت بھی بخش دی جائے کہ جس کا مطالبہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین صاحب نے کیا ہے سب سے بہتر بات تو یہ ہوگی کہ ملک کے مختلف فورمز میں اس مسئلے پر بحث و مباحث کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے معلوم کی جائے اور پھر اس پر ایک سحر حاصل بحث کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔منصفی کرنا بڑا بڑا کٹھن اور مشکل کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے قاضی القضات بننے سے انکار کر دیا تھا جج کے منصب کے ساتھ جو تقاضے جڑے ہوتے ہیں


 انہیں پورا کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے جج کی اپنی کوئی سوشل لائف نہیں ہوتی اسے معاشرے سے کٹ کر الگ تھلگ رہنا ہوتا ہے اور یہ جان جوکھوں کا کام ہے اکثر ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اچھا جج وہ ہوتا ہے جو صرف اپنے تحریری فیصلوں کے ذریعے بولے اور عدالت میں دوران سماعت وہ وکلاءسے یا ملزموں سے غیر ضروری کلمات کے تبادلے سے اجتناب کرے‘ ہماری عدلیہ کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ اس نے کئی ایسے جج پیدا کئے کہ جو حکومت وقت کے ساتھ ایک محتاط فاصلہ رکھتے تھے اور حتی الوسع سر کاری ضیافتوں میں بھی شرکت کے لیے ایوان صدر وزیراعظم ہاو¿س گورنر ہاو¿س و غیرہ جانے سے اجتناب کرتے تھے ان کی دیانت داری غیر جانبداری اعلی اخلاقی اقدار اور قابلیت کی وجہ سے ملک کا بڑے سے بڑا وکیل بھی بیک وقت ان کی عزت بھی کرتا تھا اور ان سے خائف بھی رہتا تھا ۔