اعلی سیاسی اقدار کا فقدان

اخبار میں آج جس خبر پر ہماری سب سے پہلے نظر پڑی اور جس نے ہمیں انسپائر کیا وہ خبر یہ تھی کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے دوستوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن اپنی تنخواہ میں کٹوتی کے بعد اپنے بیٹے کیلئے آیا نہیں رکھ سکیں گے ان کے مطابق جانسن کی تنخواہ کٹوتی کے بعد کافی کم ہوگئی ہے وہ رواں برس کے اوائل میں ایک بچے کے باپ بنے تھے ان کے دوستوں کا موقف ہے کہ بورس جانسن کے گھر میں ملازم ہی نہیں‘ صفائی کرنے کے لیے صرف ایک ملازم ہے اور وہ اس سلسلے میں پریشانی کا شکار ہیں کہ اپنے بچے کے لیے آیا کیسے رکھیں‘ ہوسکتا ہے یہ خبر ہمارے کئی قارئین کے لیے حیرت کا باعث ہو پر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے وزراء اعظم یا صدور کی طرح برطانیہ کے ارباب اقتدار بادشاہوں کی مانند زندگی نہیں گزار تے وہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کا فاتحہ نہیں کرتے وہاں کچھ اس قسم کے خود احتسابی کلچر نے جڑ پکڑ لی ہے کہ جس کی مثال دنیا میں میں بہت کم ہی ملتی ہے کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کی ایک سابق خاتون وزیر اعظم مسز مارگریٹ تھیچر ملا یشیا کے دورے پر اپنے شوہر مسٹر ڈینس کو بھی اپنے ساتھ لے گئی تھیں واپسی پر ہاوس آف کامنز میں مخالف لیبر پارٹی کے بعض اراکین نے شور مچایا کہ کیا وزیراعظم صاحبہ ایوان کو یہ بتانا پسند کریں گی کہ وہٹیکس دہندگان کے پیسوں پر ملیشیا کے دورے کے دوران اپنے شوہر کو اپنے ساتھ کس کھاتے میں لے گئی تھیں ان اراکین کو مسز تھیچر نے کہا وہ کل اس کا جواب ہاؤس آف کامنز کے فلور پر دیں گی انہوں نے حسب وعدہ دوسرے دن ہاؤس آف کامنز میں وہ رسیدیں پیش کیں جن سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ ملیشیا کے دورے پر گئے تو ضرور تھے پر وہاں اپنے قیام کے دوران انہوں نے ہوٹل کے کمرے کا کرایہ اپنی جیب سے دیا تھا حتیٰ کہ اپنے قیام کے دوران انہوں نے وہاں پر لانڈری سے جو اپنے کپڑے دھلوائے تھے اس کا بل بھی مسٹر ڈینس نے اپنی جیب سے ادا کیا تھا یہ دیکھ کراپوزیشن لیبر پارٹی کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔ اس قسم کی صحت مند سیاسی روایات کے برعکس جب ہم اپنے ارباب اقتدار کے سرکاری خرچے پر بودوباش اور رہن سہن کے طریقے دیکھتے ہیں تو ان کے لچھن دیکھ کر اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں جب ہمارے ارباب اقتدار بیرونی دوروں پر جاتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ غیر متعلقہ لوگوں کی ایک فوج ظفر موج بھی لے جاتے ہیں جن کے جانے یا نہ جانے سے اس ملک کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر نہیں پڑتا بجز اس کے کہ قومی خزانے کو ایک بڑی زک لگ جاتی ہے۔کاش کہ اس ملک کو بھی ماؤ ذے تنگ‘ چو این لائی‘ہوں چن من‘ نیلسن مینڈیلا‘نیارارے‘ فیڈل کاسترو وغیرہ جیسے غریب پرور اور مالی طور پر دیانتدار رہنما نصیب ہو جاتے کہ نہ جن کا اپنا پیٹ تھا اور نہ وہ کسی اور کو حرام کھانے دیتے دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ کے صدر برطانیہ کے دورے پر تھے ان دنوں جنگ کی وجہ برطانیہ میں ہر قسم کی خوراک پر راشننگ لاگو تھی حتی کہ صبح کے وقت ناشتے میں کسی کو بھی ایک انڈے کے علاوہ دوسرا انڈہ پیش نہیں کیا سکتا تھا ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں جو کہ برطانیہ کے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے وہاں پر امریکی صدر کا قیام تھا امریکی صدر نے صبح کے ناشتے کے ٹیبل پر یہ بات نوٹ کی کہ ان کی پلیٹ میں صرف ایک انڈا رکھا ہوا تھا جبکہ برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کی پلیٹ میں دو انڈے اور ان کی بیٹی جس نے یہ ناشتہ تیار کیا تھا اس کی پلیٹ میں کوئی انڈا نہ تھا تو مذاق کے طور پر امریکی صدر نے چرچل کی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ میری پلیٹ میں تو ایک انڈا ہے اور چرچل کی پلیٹ میں دو تو اس کی بیٹی نے انہیں یہ جواب دیا کہ میرے حصے کا جو انڈا تھا وہ میں نے اپنے والد کی پلیٹ میں رکھ دیا ہے کیونکہ وہ صبح دو انڈے کھانے کے عادی ہیں‘ ان مثالوں کا حوالہ دینے کا بجز اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ ہمارے قول و فعل میں جب تک فرق رہے گا ہمارا سیاسی کلچر دن بہ دن ذلت اور رسواہی کی گہرایوں سے باہر نکل نہ پائے گا اس‘ملک کے تقریباً تقریبا ًہر شعبے میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے کیا یہ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما سرجوڑ کربیٹھنے کے بعد فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی صفوں میں دوسری سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر آنے والوں کو جگہ نہیں دیں گے کجا یہ کہ ان کو وہ الیکشن لڑنے کے لئے اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیں۔اب بھی وقت ہے کہ ملک کے سیاسی کلچر کو بدلنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں اور خالی خولی باتوں سے آگے بڑھا جائے۔ ایک دوسرے کیلئے برداشت، مخالفین کی رائے کی قدر کرنا اور اپنے اوپر تنقید کو برداشت کرنا بھی وہ عوامل ہیں جو ہماری سیاست سے اگر مکمل ختم نہیں ہوئے تو ناپید ضروری ہوگئے ہیں۔ اس طرح اہم قانون سازی اور ملکی مفاد پر یکجا ہونا بھی وہ سیاسی رویہ ہے جس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں اگر یہ ایک شعبہ ٹھیک ہوگیا تو سمجھو کہ باقی سارے شعبے خود بخود ٹھیک ہونگے کیونکہ یہی تو لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں ملک و قوم کی قسمت کو سدھارنے کے اختیارات ہیں۔