ترک سعودی تنازعہ اور دوطرفہ تجارت

مشرق وسطیٰ کی سیاست اور تجارت پر کس کی حکمرانی ہونی چاہئے؟ خطے کی دو بڑی طاقتیں (سعودی عرب اور ترکی) کے درمیان تلخیوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے‘ جن کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ دونوں ممالک مشرقی وسطیٰ پر زیادہ سے زیادہ غلبہ چاہتے ہیں۔ قبل ازیں دونوں ممالک ایک دوسرے کی مخالفت میں ایک خاص حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے تھے لیکن اب اِن دونوں ممالک کی جانب سے جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ ممالک کے درمیان ’سٹریٹیجک تعلقات‘ نئی سمت میں جاسکتے ہیں اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ایک بیان کے بعد سعودی عرب کے ’چیمبر آف کامرس‘ کے سربراہ نے ہر سطح پر ترکی میں تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی چیمبر آف کامرس کے چیئرمین عجلان العجلان نے سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ ”ہر سعودی شہری کو چاہئے کہ وہ ترکی کا ہر طرح سے بائیکاٹ کرے۔ چاہے وہ درآمدات کی سطح پر ہو‘ سرمایہ کاری یا پھر سیاحت کی سطح پر۔ یہ قدم ہمارے رہنماو¿ں‘ ہمارے ملک‘ ہمارے شہریوں کے خلاف ترکی کی حکومت کی مسلسل مخالفت کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔“ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نہایت ہی جذباتی انداز میں اور اپنے ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”خلیج کے بعض ممالک ترکی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔“ سعودی قیادت نے اِس بیان کا مطلب یہ نکالا کہ انہوں نے براہ راست سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اگر ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی درخواست پر سعودی شہری اور تاجر عمل کرتے ہیں تو ترکی اس سے متاثر ہوسکتا ہے۔ اس کی اہم وجہ ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے۔ ترک کرنسی لگاتار آٹھویں برس گراوٹ کا شکار ہے اور گذشتہ ایک دہائی میں اس کی قیمت میں ’80 فیصد‘ جیسی غیرمعمولی گراوٹ ہوئی ہے۔ اگر سعودی عرب ترک مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہے تو اِس سے قریب ایک ہزار نجی ترک کمپنیاں متاثر ہوں گی اور اگر سعودی سیاح ترکی نہیں جاتے تو اِس سے بھی ترکی کی آمدنی میں کمی آئے گی۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی اختلافات میں علاقائی سطح پر یمن‘ لیبیا‘ عراق اور سوڈان سے متعلق پالیسیاں حاوی ہیں لیکن اِس کے ساتھ اسلامی دنیا کی نمائندگی سے متعلق بھی رسہ کشی جاری ہے۔ سعودی حکومت نے سرکاری سطح پر ترکی کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن اگر سعودی حکومت اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے گی تو بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اسی نوعیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس کے بعد ترکی کی عالمی تجارتی مشکلات بڑھ جائیں گی۔سعودی عرب کے ساتھ ترکی کے تجارتی روابط بارہویں درجے پر ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ترکی سے سعودی عرب ہونے والی درآمدات کی کل مالیت اٹھارہ کروڑ ڈالر تھی جو بڑھ کر جولائی میں اٹھارہ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ مجموعی طور پر سعودی عرب اور ترکی کے درمیان سالانہ پانچ ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے جس میں ڈھائی ارب ڈالر ترکی کی جانب سے اور ڈھائی ارب ڈالر سعودی عرب کی جانب سے ادا ہوتے ہیں۔ ترکی سعودی عرب سے زیادہ تر تیل خریدتا ہے جبکہ بہت سے چیزیں وہ سعودی عرب کو برآمد کرتا ہے۔ سعودی عرب کے لوگوں کی ترکی میں بہت سرمایہ کاری ہے اور گذشتہ برسوں میں سعودی باشندوں نے قریب پانچ سے چھ ارب ڈالر کی ترکی میں سرمایہ کاری کی ہے جبکہ ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ سعودی سیاح ترکی جاتے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں تلخی کی حالیہ شروعات 2018ءمیں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی میں قتل سے ہوئی تھی۔ خاشقجی کی ہلاکت کے لئے اردگان سعودی عرب کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ حال ہی میں خاشقجی کے قتل کے معاملے کے پانچ مجرموں کی سزا میں تبدیلی سے بھی ترکی ناراض ہے۔ حال میں امریکہ کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور باہمی سفارتی رشتوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی رضا مندی کے بغیر ان ممالک کا یہ اقدام ممکن نہیں لیکن ستمبر کے شروع میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر ٹرمپ پر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آئیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو جائے۔ سعودی عرب کےلئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ترکی جیسے ملک کے ساتھ طویل وقت تک اپنی تلخی برقرار رکھے۔ اس کی وجہ ترکی کی نیٹو میں شمولیت اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت ہے۔اگر صحافی خاشقجی کے معاملے کو بھول بھی جائیں تب بھی ترکی اور سعودی عرب کے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس سے دونوں کے درمیان رشتے خراب ہوں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عامر فاروق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)