تحمل و برداشت کی ضرورت

 ایک منچلے کے بقول مولانا صاحب کو پی ڈی ایم کی قیادت تو انجام کار مل ہی گئی پر اس کی مثال اس دودھ جیسی ہے کہ جو مینگنیوں سے بھرا ہو وہ اس لئے کہ پی پی پی نے دبے الفاظ میں اس کی مخالفت کی اس کا موقف یہ تھا کہ سربراہی مرحلہ وار تمام جماعتوں کو ملنی چاہئے اے این پی نے بھی پی پی پی کے موقف سے اتفاق کیا کل کیا ہوگا یہ تو خدا ہی جانے پر لگتا ہے کہ حکومت کے لیے ایک نیا درد سر شروع ہو چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں جس طریقے سے سیاست کا کھیل کھیلا جاتا ہے اس میں آج مولانا فضل الرحمان سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا کھلاڑی ہو‘ ملک کی دو بڑی جماعتوں کی ٹاپ کی لیڈرشپ میگا کرپشن مقدمات میں داغدارہو کر عوام کی نظر میں کافی حد تک اپنی وقعت کھو چکی ہے اس لیے اپوزیشن نے یہ بہتر جانا کہ ان حالات میں مولانا صاحب ہی وہ واحد لیڈر ہو سکتے ہیں کہ جو ان کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو دریا کے کنارے پر پہنچا سکیں ‘ مولانا صاحب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست کے پرستار ہیں وہ کبھی بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں جاتے وہ مذاکرات کے دروازے کبھی بھی مکمل طور پر بند نہیں کرتے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر چل کر وہ انجام کار اپنا سیاسی ہدف حاصل کر لیتے ہیں دلوں کے بھید تو خیر خدا ہی جانتا ہے سرِدست بظاہر دیگر سیاسی پارٹیوں نے مولانا صاحب کو اپنا لیڈر تسلیم کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد آگے چل کر کیا رنگ لاتا ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی (س) اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالے گی اس سوال کا جواب سر دست نہیں دیا جا سکتا ان دونوں جماعتوں کے کرتا دھرتا آج کل مختلف سیاسی آپشنز پر غور کر رہے ہیں یہ دونوں جماعتیں ماضی میں مولانا صاحب کے ساتھ بھی یک جان دو قالب رہ چکی ہیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ بھی اور وہ اس لئے کہ سیاست اس ملک میں نام ہی ہے ممکنات کے کھیل کا اس میں نہ تو کوی مستقل دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دائمی دشمنی۔یہ بات نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ اس ملک کے سیاسی کلچر میں برداشت کا عنصر دن بدن عنقا ہوتا جا رہا ہے ‘اگلے روز ایک ٹیلی ویژن چینل نے ایک فوٹیج دکھائی جس میں چند وکلاءایک عدالت کے احاطے میں پولیس کے ایک تفتیشی افسر کی پٹائی کر رہے تھے یہ ہم آخر کس طرف جا رہے ہیں اس قسم کی حرکات کے مرتکب ہو کر ہم اپنی نئی نسل کو آخر کیا پیغام دے رہے ہیں اس ملک میں وکلاءکی کئی تنظیمیں موجود ہیں وہ اس قسم کے واقعات میں ملوث وکلاءکے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہیں کرتیں اگر وہ لوگ کہ جن کے کندھوں پر قانون کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خود ہی اس قسم کی حرکتوں سے قانون شکنی پر اتر آئیں تو پھر کس سے گلہ کیا جائے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں برداشت اور تحمل کو رواج دیا جائے اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ نہ صرف سیاست میں بلکہ پورے معاشرے میں مخالف کی رائے کو اس وقت وقعت نہیں دی جارہی اورہر کوئی اپنے موقف پر کھڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات تلخ سے تلخ ہوتے جا رہے ہیں جو کسی بھی طرح نیک شگون نہیں۔ ایک وقت تھا کہ سیاست میں خاص طورپر مخالفین کی زیادہ عزت کی جاتی تھیں اور انہیں احترام کا درجہ دیا جاتا تھا اور کبھی بھی سیاستدان اس درجے پر معاملات کو نہیں لے جاتے تھے جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی یعنی مفاہمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے جاتے تھے۔