تضادات کی دنیا

 دوغلے پن اور تضاد ات دونوں نے مل کر اس ملک کی سیاست اور اخلاقیات کا دیوالیہ نکال دیا ہے ایک عرصے سے حکومت سندھ کے رہنما گلہ پھاڑ پھاڑ کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ کورونا وائرس ابھی ان کے صوبے سے ختم نہیں ہوا کیا ان کو یہ پتا نہیں کہ اس وائرس کے پھیلاو¿ کی ایک بڑی وجہ عوام کے جمگھٹے بھی ہیں ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ ایک طرف تو کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری جانب آپ کراچی کی سڑکوں پر اپنی سٹریٹ پاور دکھانے کےلئے لوگوں کا جم غفیر جمع کرتے ہیں کیا آپ کی عوامی ریلیوں سے کورونا مزید نہیں پھیلے گا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ خود جب آپس میں کسی مسئلے پر گفت و شنید کریں تو منہ پر ماسک پہن کر آن لائن مذاکرات کریں پر دوسری طرف اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کےلیے آپ عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کےلئے انہیں سڑکوں پر نکلنے کےلئے مجبور کریں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کرتا دھرتا اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر شروع ہوچکی ہے اور یہ کہ سردیوں میں یہ مزید شدت پکڑے گی اور اگر مناسب حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ لہر پہلی لہر سے زیادہ جان لیوا ثابت ہو گی اس لیے یہ بات بڑی ضروری ہے کہ اس وارننگ کو سنجیدگی سے لیا جائے اور سماجی فاصلے رکھے جائیں اس ضمن میں اپوزیشن لیڈروں کو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا اختلاف رائے بےشک ان کا حق ہے اور کسی مسئلے پر ایجی ٹیشن کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے پر وہ ایسی حرکات سے اجتناب کریں کہ جن میں عوام کے نقصان کا زیادہ احتمال ہو بہتر تو یہ ہوگا کہ سردست وہ جلسے اور جلوس منعقد کرنے کے بجائے اپنا پروگرام آن لائن اجلاسوں اور الیکٹرونک میڈیا پر ٹاک شوز تک ہی محدود رکھیں اور عوام کو جمگھٹے کی صورت میں یکجا نہ ہونے دیں کہ اس روش سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خد شہ ہے۔ کوئی بھی سیاستدان بھلے اس کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے یہ بات نہ بھولے کہ اگر ملک سلامت ہوگا تو تب ہی ان کی سیاست چمک سکتی ہے اور ملک عوام سے بنتے ہیں اگر خاکم بدہن عوام ہی نہ ہوں تو پھر کہاں کا ملک اور کہاں کی سیاست لہذا اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ اس ملک کو درپیش ہے وہ ہے کورونا وائرس کی وبا کہ جسکو بہرصورت ضروری حفاظتی اقدامات اٹھا کر ہم نے من حیث القوم شکست دینی ہے اس وقت یہ ملک کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جس کےلئے حکومت وقت کو ملک کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی مدد کی اشد ضرورت ہے سیاست کے لئے تو ایک عمر پڑی ہے آج نہیں توکل۔ اس ملک کے عوام اس لحاظ سے بڑے بدقسمت ہیں کہ گزشتہ ستر بہتر برسوں میں ان پر جس نے بھی حکومت کی اس نے صرف اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت دی وہ خود تو فقیر سے رئیس بن گئے پر قوم کو غریب سے غریب تر کرگئے اب گزرے ہوئے زمانے پر رونے پر کیا حاصل دور اندیشی اور پلاننگ نامی چیز تو ہمارے ماضی کے حکمرانوں کے دور سے بھی نہیں گزری نہ ہی انہوں نے یہ سوچا کہ جس تیز رفتاری سے اس ملک کی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسے کس طرح بریک لگائی جائے نہ ہی انہوں نے یہ سوچا کہ اس ملک کو تعصبات کے ناسور سے کس طرح پاک کیا جائے کسی نے بھی اس طرف توجہ نہ دی کہ عوام کو کس طرح سستی سے سستی بجلی فراہم کی جائے ان کی آمدورفت کےلئے اچھی قسم کی ایک پبلک ٹرانسپورٹ ہو سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے بدقسمتی یہ تھی کہ ہر حکومت نے عوام کے بجائے خواص کے مفادات کا خیال رکھا وہ جو اردو زبان کا محاورہ ہے کہ آوے کا آوا بگڑنا وہ وطن عزیز کے حالات پر سو فیصد لاگو ہوتا ہے اس ملک کا عام آدمی آج ایک سخت مخمصے کا شکار ہے اس کے سامنے وہ لوگ بھی موجود ہیں کہ جو گزشتہ چالیس برسوں میں اس ملک میں برسر اقتدار رہے ہیں اور آج ایک مرتبہ پھر ایوان اقتدار کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ سوچتا ہے کہ کیا آزمائے کو دوبارہ آزمانا دانش مندی ہوگی یا موجودہ قیادت کو حکومت میں اپنی آئینی مدت پوری کرنی کرنے کی مہلت ملنی چاہئے۔