چند دنوں میں پی ڈی ایم والے ملک بھر میں حکومت کے خلاف جلسے اور جلوسوں کا ایک احتجاجی پروگرام شروع کرنے والے ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ اگر کورونا وائرس نے اس ملک کا پیچھا نہ کیا تو ملک کا سیاسی تندور کافی گرم ہو جائے گا پر اگر کورونا کی وبا زور پکڑتی ہے تو پھر شاید احتجاجی تحریک زیادہ دم خم نہ دکھا سکے اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتاہے ویسے پی ڈی ایم والوں نے کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کی صورت میں احتجاجی تحریک چلانے کےلئے کوئی نہ کوئی متبادل حکمت عملی ضرورت بنا رکھی ہوگی ایک اخباری خبر کے مطابق وزیر اعظم صاحب نے اپوزیشن کے بعض رہنماو¿ں کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے اندراج پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لگتا یہ ہے کہ اس معاملے میں حکومت کے متعلقہ اداروں نے عجلت سے کام لیا ہے اس قسم کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے معاملے کی نزاکت کو ہر پہلو سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات کوئی بھی غلط کام مس فائر بھی کر سکتا ہے اور حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے کسی پر غداری کا الزام لگانے سے پہلے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی کئی مرتبہ سو چنا ضروری ہوتا ہے کہ کیا اسے عدالت کے کٹہرے میں ثابت بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس معاملے میں ماضی کی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں بعض حکومتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے ان پر بغاوت کے جھوٹے مقدمے بنائے پر چونکہ ان کے خلاف ٹھوس شہادتیں موجود نہ تھیں لہذا ٹرائل کورٹس میں ان حکومتوں کو سبکی اٹھانی پڑی اور انجام کار وہ سب باعزت بری ہوئے راولپنڈی سازش کیس سے لے کر آج تک بغاوت کے مقدمات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ حکومت کو جن کاموں پر توجہ دینی چاہیے اور جلد سے جلد انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے وہ ہیں وہ میگا کرپشن کے مقدمات کہ جن میں کئی سابق حکمران بری طرح ملوث ہیں ان مقدمات کے جلد فیصلوں کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دے رہا ابھی تک قومی خزانے کو لوٹنے والوں سے حکومت نے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کیا اگر حکومت اسی طرح کچھوے کی چال چلتی رہیں تو آئندہ الیکشن کا وقت سر پر آ جائے گا اور میگا کرپشن کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو سکے گا اور یہی کرپٹ لوگ آئندہ الیکشن میں بھی حصہ لیں گے اورجلسوں جلوسوں میں اپنی دو انگلیوں سے وکٹری سائن بھی بنائینگے دوسری طرف عوامی حلقے اس بات کو پسند نہیں کر رہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی کابینہ کا حجم بد ستور زیادہ سے زیادہ کر رہے ہیں ۔حال ہی میں ان کی کابینہ میں ڈاکٹر وقار مسعود کی بطور معاون ریونیو شمولیت سے وفاقی کابینہ کی تعداد بڑھ کر 51 ہو گئی ہے ان میں غیر منتخب شخصیات کی تعداد بیس ہے وفاقی وزرا ءکی تعداد 27 اور وزرائے مملکت کی تعداد 3 مشیروں کی تعداد 5 اور معاونین خصوصی کی تعداد 16 ہوگئی ہے سیاسی مبصرین کے مطابق معاون خصوصی برائے ریونیو کی تقرری سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے اختیارات میں کمی ہوگی جو اس وقت ریونیو ڈویژن کے بھی مشیر ہیں اگرچہ حفیظ شیخ ڈاکٹر وقار مسعود کے درمیان اچھے تعلقات ہیں لیکن نئے ورکنگ ریلیشن شپ کی کامیابی کا انحصار آنے والے وقت پر ہے اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بھی اہم مسئلہ ہے قبل ازیں حفیظ شیخ کی مخالفت کی وجہ سے حماد اظہر کو ریونیو ڈویژن کا انچارج وزیر بنانے اور ہارون اختر خان کو معاون خصوصی برائے ریونیو ڈویژن بنانے کی تجویز پر عمل نہیں ہو سکا حفیظ شیخ کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ تمام معاملات ایک کمانڈ میں رہنے چاہئیں چونکہ پیپلزپارٹی کے دور میں سیکرٹری خزانہ کی حیثیت سے ڈاکٹر وقار مسعود حفیظ شیخ کے ساتھ کام کرچکے ہیں لہذا امکان ہے کہ ان کی یہ جوڑی ڈیلیور کرسکے اور اس کی اگر معاشی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اہم قدم نہیں۔