یہ خبر پڑھ کر کہ وفاقی کابینہ نے گندم اور چینی کی قیمتیں بڑھانے والوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا فیصلہ کرلیا ہے ہمارے لبوں پر بے ساختہ یہ الفاظ آ گئے نشستند ‘ گفتند و برخاستنداس خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا خدا لگتی یہ ہے کہ اس قسم کی خبریں سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں ہم گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں اس قسم کے فیصلے عوام کے طفل تسلی کےلئے کیے جاتے ہیں حکومت وقت نے تو اس قسم کے فیصلے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ گزشتہ دو برسوں میں کیے ہیں ‘ کیاحکومت عوام کو یہ بتانے کی جسارت کرے گی کہ گزشتہ دو برسوں میں ملک بھر میں اس قسم کے کتنے گوداموں کو سیل کیا گیا کہ جن میں ذخیرہ اندوزوں نے چینی آٹا اور دیگر اشیاءخوردنی کا ذخیرہ کیا تھا اور کیا ان میں سٹاک کی گئی اشیاءخوردنی کو نیلام عام کیا گیا ‘ عوام حکومت سے اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ ذخیرہ اندوزوں کے نام کیا تھے اور ان کا تعلق ایوان اقتدار یا حزب اختلاف کے کس طبقے کے ساتھ تھا اب ہم جس واقعہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ حسب حال ہے نیا نیا پاکستان بنا تھا چوک یادگار پشاور میں ایک جلسہ عام سے اس وقت کے وزیر اعلی خیبر پختونخوا خطاب کر رہے تھے کہ لوگوں کے مجمع سے شور اٹھا کہ صوبے میں چینی کی سخت قلت ہے جو ذخیرہ اندوزوں نے اپنے گوداموں میں چھپا رکھی ہے اور یہ کہ پولیس کسی نہ کسی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی‘ جب وزیر اعلیٰ نے یہ بات سنی تو انہوں نے جوش خطابت میں ایک فیصلہ کیا کہ جو بظاہر تو غیر قانونی تھا پر اس کے اثرات بڑے مثبت نکلے انہوں نے جلسے میں موجود عوام سے کہا کہ جس جگہ انہیں کوئی ایسا گودام نظر آئے کہ جس میں چینی کا ذخیرہ کیا گیا ہو تو وہ بے شک اسے لوٹ لیں اور میں پولیس کو حکم دیتا ہوں کہ وہ لوٹنے والوں کے خلاف کوئی پرچہ نہ کاٹے۔ دوسرے دن صوبہ بھر میں تقریبا سو کے قریب اس قسم کے چینی کے گودام عوام نے لوٹ لئے کہ جن میں ذخیرہ اندوزوں نے چینی کو ذخیرہ کر رکھا تھا یہ صورت حال دیکھ کر کئی ذخیرہ اندوزوں میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ مبادا ان کے بھی گودام کہیں لوٹ نہ لئے جائیں وہ خود ہی چینی کو مارکیٹ میں لے آئے جس سے نہ صرف مارکیٹ میں چینی وافر مقدار میں میسر آگئی بلکہ اس کی قیمتوں میں بھی استحکام آگیا جب تک کچھ اسی قسم کے فیصلے حکام بالا نہیں کریں گے‘ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس ملک کا حریص تاجر اور ذخیرہ اندوز اپنی حرکتوں سے باز آئے‘ اب اگر حکومت کا ڈراس کے دل سے نکل جائے تو پھر اسے عوام کی چمڑی ادھیڑ نے سے کون روک سکتا ہے‘ آپ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ جب بھی ملک میں کوئی چھوٹا یا بڑا جرم ہوتا ہے تو اخبار میں یہ خبر چھپتی ہے کہ فلاں فلاں حکومتی ذمہ داروںنے اسکا نوٹس لے لیا ہے اور پھر اس میں ملوث ملزمان خلاف کیا کاروائی ہوئی وہ پکڑے بھی گئے یا فرار ہوگئے اور اگر گرفتار ہوئے تو عدالت میں ان کا مقدمہ کتنے عرصے تک چلا اور کیا انہیں قرار واقعی سزا ہوئی ان سوالات کا جواب پھر کوئی نہیں دیتا اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں ہم تو یہ بات مان ہی نہیں سکتے کہ کسی پولیس تھانے دار کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کے دائرہ اختیار میں جو علاقہ ہے اس میں کہاں کہاں کون کیا کرتا ہے‘ ہر غیر قانونی کام کا تدارک تھا نیدار کو خود کرنا چاہیے اس کے یہ روزمرہ کے کام ہیں اور اس میں میں کسی طرف سے بھی کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دس میں سے نو کیسز میں تھانے داروں کو سیاسی لوگ مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اس قسم کے مجرموں کے خلاف اپنا ہاتھ ہولا رکھیں کیونکہ کل کلاں انہوں نے الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں اور وہ کسی طور بھی اپنے ووٹ بینک کو خراب کرنا نہیں چاہتے۔