آپ نے ضرور یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ ہمارے اکثر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کی بجائے اسے اپنے موٹر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا دیتے ہیں اور جب کسی ٹریفک پولیس والے کو دور سے دیکھتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے اسے وقتی طور پر پہن لیتے ہیں جس قوم کا یہ رویہ ہو اس سے کون یہ توقع رکھے کہ وہ ماسک پہنے گی یا سماجی فاصلے رکھے گی اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں اگر قوم بے احتیاطی کرے گی تو کورونا نے تو پھر دوبارہ سر اٹھانا ہے تب ہی تو بزرگ کہہ گئے ہیں کہ ڈنڈا علاج ہے بگڑے تگڑے کا جس طرح بعض یورپی ممالک میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نبٹا جا رہا ہے اسی طرح وطن عزیز میں بھی سختی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد اب ہم ذکر کریں گے آج کی دو نہایت ہی اہم خبروں کا پہلی خبر مشیر داخلہ و احتساب کا وہ بیان ہے کہ جس میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اپوزیشن کی سیاست چند گھرانوں کی غلامی میں پھنسی ہوئی ہے ان کی یہ بات سولہ آنے درست ہے درحقیقت پاکستان میں اس وقت جو پارلیمانی جمہوری نظام چل رہا ہے بادی النظر میں تو وہ جمہوری نظام کہلاتا ہے پر اگر آپ اس کی تہہ میں جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس نظام میں اور بادشاہی نظام میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہوگا‘ وطن عزیز میں اس وقت جو سیاسی پارٹیاں کام کر رہی ہیں‘ان میں اکثریت ایسی پارٹیوں کی ہے کہ جن میں آپ کو موروثی سیاست کا رنگ نظر آئے گا ہمیں تو کبھی کبھی ان پارٹیوں میں پرانے سفید ریش رہنماو¿ں کی حالت زار اور بے بسی کو دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنی سیاسی پارٹیوں کی خدمت میں صرف کر دی پر پارٹی کی قیادت نے انہیں اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے ہمارے ملک کے اندر اکثر سیاسی پارٹیوں کی حالت ان پرائیویٹ کمپنیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں کہ جو بزنس کی دنیا میں کام کرتی ہیں ایک دو سیاسی پارٹیاں ضرور ایسی موجود ہوں گی کہ جن میں انٹرا پارٹی الیکشن جمہوری تقاضوں کے مطابق ہوتے ہوں پر اس قسم کی پارٹیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اکثر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ براے نام انٹرا پارٹی الیکشن کرواتے تو ضرور ہیں پر اس طریقے سے کراتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اہم کلیدی مناصب پر ان کے خاندان کے افراد ہی فائز ہو جائیں تاکہ ان کو یہ تسلی رہے کہ کم از کم ان کی پارٹی کی قیادت ان کے گھر میں ہی رہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سیاسی لیڈر جو اپنے گھر میں اپنی پارٹی کے اندر صحیح معنوں میں جمہوری تقاضوں کے مطابق معمولات زندگی نہیں چلاتے ان سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک کو جمہوری روایات کے مطابق چلائیں گے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سب سے پہلے سیاسی پارٹیوں کے اندر صحیح معنوں میں جمہوریت لانے کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے لئے ایسے قواعد و ضوابط تشکیل دے کہ جن سے سیاسی پارٹیوں کے اندر موروثی سیاست کا خاتمہ ہو جائے ۔ دوسری اہم خبر جو ہم قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں وہ ان شاندار افسران کے بارے میں ہے کہ جو اپنی سروس کے حالات سے تنگ آکر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں ایک دور تھا کہ جب ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا بچہ یا بچی سول سروس جوائن کرے آج کل جس طرح قانون کے مطابق کام کرنے والے والے سرکاری ملازمین کو گھر بھجوا دیا جاتا ہے یا بقول کسے کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے اس کے پیش نظر اب ماں باپ اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ کسی نجی سیکٹر میں نوکری کرلیں پر سول سروس کا رخ نہ کریں کیونکہ وہاں اب ان کو حکام بالا اپنے گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کریں گے ان سے غلط کاموں کی توقع کریں گے اور اگر وہ ان کے اشارے پر غیر قانونی کام نہیں کریں گے تو انہیں نامناسب طریقے سے سروس سے نکال دیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ آج کل ایک عرصے سے سول سروس میں اچھے افسروں کا فقدان ہے ۔