زمینی حقائق کا ادراک

 کئی لوگوں کو یہ خبر بڑی عجیب لگی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کی ارزانی کےلئے تمام ریاستی وسائل استعمال کیے جائیں گے کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ابھی تک حکومت نے مہنگائی کے کنٹرول کےلئے سرکاری مشینری کو استعمال ہی نہیں کیا اور اب جا کر اسے بعد از خرابی بسیار مہنگائی کا خیال آیا حکومت کا یہ بیان بھی بڑا مضحکہ خیز ہے کہ وہ جائزہ لے رہی ہے کہ آیا غذائی اجناس کی واقعی قلت ہے یا ذخیراندوزی کی وجہ ہے بالفاظ دیگر حکو مت کو ابھی تک اس بات کا بھی پتہ نہیں کہ ملک میں آیا کیا غذائی اجناس کی واقعی قلت ہے یا یہ قلت ذخیراندوزی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ابھی تک وہ صرف جائزہ ہی لے رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں گڈ گورننس کا کس قدر شدید بحران ہے اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر کنٹرول کی طرف حکومت کا اتنا خیال گزشتہ دو برسوں میں نہیں رہا کہ جتنا ہونا چاہئے تھا حکومت نے ابھی تک ایسا میکنیزم کیوں نہیں وضع کیا کہ اسے روزانہ کی بنیادوں پر یہ پتہ چلتا رہتا کہ مارکیٹ میں کن کن اشیاءخوردنی کی کمی کا خدشہ ہے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہر ڈپٹی کمشنر کو اس کا تحصیلدار ہر صبح منڈی کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ دے سکتا ہے کہ آج منڈی میں کون کون سی اشیاءکس کس بھاو¿ بک رہی ہیں اور یہ کہ کن کن اشیاءخوردونوش کی کمی آئندہ چند دنوں میں پیدا ہو سکتی ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں اور اس کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں کا پتہ لگانا بھلا کون سا مشکل کام ہے یہ تو تھانے دار کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اگر اسے یہ پتہ نہیں چل رہا کہ اس کے دائرہ اختیار میں کن کن لوگوں نے کون کون سی اشیاءخوردنی کا ذخیرہ کر رکھا ہے تو پھر اسے تھانے داری کرنے کا کیا حق ہے تحصیلدار اور تھانے دار کو مضبوط کیجئے انہیں مکمل اختیار دیجئے گا پھر آپ دیکھئے کہ معاشرہ کیسے درست نہیں ہوتا پر اس کےلئے ضروری ہے ان کے کاموں میں کوئی سیاسی مداخلت نہ کی جائے ‘ تندور کی روٹی ہو یا آٹے کی گھر میں پکی ہوئی روٹی پاکستان جیسے غریب ممالک کے عوام کا یہ من بھاتا کھاجا ہے اوروہ روٹی کے ساتھ پیاز یا چٹنی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں 1970 کی دہائی میں جب عراق نے ایران پر حملہ کیا اور ان دونوں ممالک کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو ایران میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ایران کے اندر تندور کی روٹی کے وزن میں کسی صورت کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اس کی قیمت میں اضافہ ہونا چاہئے کیونکہ انہیںپتہ تھا کہ ایک عام ایرانی تندور کی روٹی کے ساتھ خربوزہ کھا کر اپنا پیٹ بھرتا ہے اور اگر تندور کی روٹی مہنگی ہوگئی تو اس کی زندگی اجیرن ہو جائے گی چناچہ ایران عراق کی لمبی جنگ کے دوران ایران میں تندور کی روٹی نہ مہنگی ہوئی اور نہ اس کے وزن میں کوئی کمی کی گئی اس سے پہلے تو اس ملک میں حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہم نے نہیں دیکھی کہ جتنی اب دیکھ رہے ہیں آج کل تو انتظامیہ اور پولیس کی بات کوئی کاروباری طبقہ سرے سے مانتا ہی نہیں انہیں اگر کہا جائے کہ رات کو آپ اندھیرا ہوتے ہی اپنی دوکانیں بند کر دیا کریں اور صبح صادق روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ اپنی دکانیں کھول دیا کریں تاکہ بجلی کی بچت کی جا سکے تو وہ اس تجویز کو نہایت ہی تمسخرانہ انداز میں رد کر دیتے ہیں نہ سول انتظامیہ اور نہ ہی پولیس کے تلوں میں اتنا تیل ہے کہ وہ اپنی جائز بات بھی کسی کاروباری طبقے سے منوا سکیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کاروباری طبقوں کے پیچھے لمبے سیاسی ہاتھ ہیں جنہوں نے انتظامیہ اور پولیس کو مفلوج کر رکھا ہے اگر تو حکومت نے مہنگائی کے جن پر فوری طور پر قابو نہ پایا اور اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا کہ جس طرح گزشتہ دو برسوں میں ہورہا ہے تو پھر آنے والے والے الیکشن سے پہلے ہی شاید حکومت وقت کےلئے برا وقت آ جائے اس ہوشربا مہنگائی نے عوام کے چھکے چھڑا دئیے ہیں اس بے پناہ مہنگائی کی وجہ سے وہ سیاسی لیڈر جو عوام کی نظر میں کل تک ولن تھے آج وہ عوام کے سامنے اپنے آپ کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں ‘اگلے روز کسی نے میاں نواز شریف صاحب کی لندن میں موجودہ جلاوطنی کو1970کی دہائی میںامام خمینی صاحب کی فرانس میں جلاوطنی کے برابر قرار دے دیا حالانکہ اولاالذکر کا کسی بھی لحاظ سے ثانی الذکر کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا ایران کے روحانی رہنما نے اپنی ساری زندگی ایک عام ایرانی کی طرح ایک چھوٹے سے گھر میں گزاری اور ان کا سب سے بڑا بیٹا جب فوت ہوا تو اس کے بنک اکاو¿نٹ میں سے جو پیسے نکلے وہ پاکستانی کرنسی میں صرف48 روپے بنتے تھے۔ اسی طرح بعض یار لوگ آصف علی زرداری کو پاکستانی نیلسن مینڈیلا قرار دے دیتے ہیں اور وہ یہ بات بآسانی بھول جاتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے اگر 27 برس جیل میں گزارے تو وہ سیاہ فام لوگوں کی گوروں کے راج سے آزادی کے واسطے گزارے تھے کوئی اور الزام ان پر نہ تھا۔ یہ تو ہمارے ملک کے عام آدمی کا ارمان ہی رہا اس کی خواہش ہی رہی کہ کاش اس ملک کے حکمران اس طرح کی زندگی گزارتے کہ جس طرح فیڈل کاسترو‘ لینن ‘ ماو¿ زے تنگ نے امام خمینی نے یا مہاتیر محمد نے گزاری اور یا اسی قسم کے اور کئی رہنماو¿ں نے گزاری کہ جن کے نام سردست یاد نہیں آ رہے پر مقام افسوس ہے کہ اس ملک میں جو بھی حکمران آیا اس کی سوچ آمرانہ بھی تھی اور بادشاہانہ بھی ‘ وہ لوگوں کو تو یہ تلقین کرتے کہ سادگی بڑی اچھی چیز ہے اور دیانتداری سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شے نہیں پر عملی طور پر انہوں نے اس کا مظاہرہ خود کبھی نہ کیا ‘ خود انہوں نے اپنی زندگی ایوان اقتدار میں بادشاہوں کی طرح گزاری اور یہی اس ملک کا اور اس قوم کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔