پیار و محبت والے لوگ

اس ملک کے کئی لوگ ٹائیگر فورس کو حکمران پارٹی کی ذاتی فورس سمجھتے ہیں لہٰذا حکومت نے آٹے دال چینی کی قیمتیں چیک کرنے کا جو حکم ٹائیگر فورس کو دیا ہے اس کا عوام پر کوئی اچھا تاثر نہیں پڑا اگر یہ کام ٹائیگرفورس نے ہی کرنا ہے توپھر محکمہ خوراک‘ ضلعی انتظامیہ ‘سپیشل مجسٹریٹ اور پولیس کے محکموں کے قیام کا آخر جواز کیا ہے ان سرکاری محکموں کو پھر ختم کر دینا چاہئے ٹائیگر فورس کے ذریعے اشیائے خوردنی پر کنٹرول کرنے سے حکومت کے لئے پریشانیاں زیادہ بڑ جائیں گی خدشہ یہ ہے کہ ملک کے دیگر سیاسی طبقے اس فورس کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کریں گے‘ سول انتظامیہ ‘پولیس سپیشل مجسٹریٹ وغیرہ کا خاصا یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر سیاسی قسم کے ادارے ہوتے ہیں اور ان کا کہا معاشرے سے تعلق رکھنے والا ہر طبقہ سنا کرتا ہے جبکہ وہی بات اگر ٹائیگر فورس کے اہل کار کریں گے کہ جن پر حکومت کی چھاپ لگی ہوئی ہے تو عام آدمی خصوصا ً دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنا والا فرد ان کا کہا کبھی نہیں مانے گا اپوزیشن کے بعض رہنماو¿ں نے تو ابھی سے ہی ٹائیگر فورس کو بھٹو کی ایف ایس ایف اور چین کے ریڈ گارڈز red guards کے ساتھ مشابہت دینا شروع کر دی ہے نہ جانے یہ مشورہ حکومت وقت کو کس نے دیا تھا کہ وہ ٹائیگر فورس کا قیام عمل میں لائے ‘ کیا اس سے یہ بہتر نہ تھا کہ موجودہ سول سروس کے ڈھانچے کو ہی بہتر بنایا جاتا اس کو ہی فعال کیا جاتا نت نئے تجربے کرنے کی اور اپنے لئے نئی نئی پریشانیاں خریدنے کی حکومت کو آخری کیا ضرورت ہے اشیائے خوردنی کو کنٹرول کرنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں آخر ماضی میں بھی تو اشیاءخوردنی کی گرانی کو حکومتیں کنٹرول کرتی آئی ہیں ‘ اس زمانے میں سول انتظامیہ کو کلی اختیار ہوتا تھا کہ وہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر سختی سے ہاتھ ڈالے اور ایک مرتبہ جب ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد قانون کے شکنجے میں آ جاتے تو پھر کوئی مائی کا لال انہیں قانونی گرفت سے بآسانی چھڑا نہیں سکتا تھا ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر نے ایک ڈسٹرکٹ پرائز ریو یو کمیٹی تشکیل دی ہوتی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ اشیاءخوردنی کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کسی بھی کھانے پینے کی اشیاءکی قیمت میں بلاجواز کوئی اضافہ نہ ہو ہر مہینے کم از کم دو مرتبہ پرائز ویڈیو کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوتی تھی ان کمیٹیوں میں تمام تجارتوں سے تعلق رکھنے والوں کے نمائندے موجود ہوتے اور ان کے ساتھ ساتھ ضلع کے سفید ریش بزرگ افراد بھی مقامی صحافیوں اور وکلاءبرادری کے ممبران محکمہ خوراک اور ضلع انتظامیہ کے علاوہ پولیس کے نمائندے بھی ان میٹنگ میں شرکت کرتے تھے‘ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ اس کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی دکاندار یا تاجر کسی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں از خود بغیر کسی ٹھوس جواز کے اضافہ کر سکیں۔قصہ اس دن سے خراب ہوا ہے کہ جب انتظامی امور میں سیاسی مداخلت شروع کر دی گئی اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا یا ذخیرہ روکنا بھلا کون سا مشکل کام ہے علاقے کے تھانے دار اور اور میونسپل مجسٹریٹ کو اختیار دے دیے جائیں کہ وہ بلا جھجک اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں اور یہ کہ ان کے کسی بھی کام میں حکام بالا کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے اگر تھانے دار یا میونسپل مجسٹریٹ کے کسی اقدام پر کسی کو شک ہو کہ وہ غیر قانونی ہے یا کسی زیادتی پر منحصر ہے تو اس کی داد رسی کے لئے رستہ موجود ہے اور وہ ہے بالائی عدالت میں ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا‘ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج انتظامیہ اور پولیس بری طرح مفلوج کر دی گئی ہے اب ان سروسز سے تعلق رکھنے والے لوگ اس لیے بھی سماج دشمن عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کرتے کہ انہیں پتہ ہے کہ اس قسم کے لوگوںکے سیاسی ہاتھ بہت لمبے ہیں اور یہ نہ ہو کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے انہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ہم نے کئی اعلی پولیس افسروں کی پیٹیاں اترتی دیکھیں کیونکہ انہوں نے ان لوگوں پر قانون شکنی کے الزام میں ہاتھ ڈالا کہ جو کسی غیر قانونی کام کے مرتکب ثابت ہوئے تھے ۔