ایک دانشمندانہ فیصلہ

حکومت کا یہ فیصلہ بڑا صائب ہے جس کے تحت اس نے اپوزیشن جماعتوں کو مکمل آزادی فراہم کردی کہ وہ جس جگہ چاہیں اپنے جلسے کر سکتے ہیں بس ایک چیز کا خیال رہے کہ وہ کسی غیر قانونی حرکت کے مرتکب نہ ہوں آپ ذرا دو منٹ کےلئے سوچئے اگر حکومت نے ان کو اس قسم کی کھلی چھٹی نہ دی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ جگہ جگہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کا پولیس والوں سے تصادم ہوتا اور خدانخواستہ اگر ان جھڑپوں میں کسی کی جان چلی جاتی تو اس سے ملک میں مزید کشیدگی پھیلتی ماہریں نفسیات کے مطابق جلسوں سے عوام کے دلوں کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں جلوسوں میں عوام الناس کی حاضری سے حکومت وقت کو یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ درحقیقت لوگوں کی تعداد کتنی ہے ان کی صحیح تعداد سے اندازہ لگا کر حکومت وقت پھر ان کے ساتھ اس کے مطابق گفت و شنید کے زاویے مقرر کرتی ہے آج کل یہ معلوم کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا کہ اپوزیشن کی سٹریٹ پاور کس قدر ہے کیونکہ مارکیٹ میں ایک سے زیادہ ابلاغ عامہ کے ذرائع کام کر رہے ہیں ایک دور تھا کہ جب مارکیٹ میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور ریڈیو پاکستان موجود ہوا کرتے تھے اور اخبارات کی تعداد بھی نہایت محدود ہوا کرتی تھی لہذا حکومتوں کا زیادہ تر انحصار خفیہ اداروں پر ہوتا تھا جیسا کہ سی آئی ڈی ‘سپیشل برانچ وغیرہ وغیرہ یاد رہے کہ حکومت صرف اسی وقت اپنی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کی صحیح خدوخال پر تشکیل دے سکتی ہے جبکہ اس کے پاس جو بھی خفیہ اداروں سے رپورٹیں موصول ہوں وہ سوفیصد درست ہوں اور اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہ ہو۔کہا جاتا ہے کہ انیس سو ستر کے اوائل میں جنرل یحییٰ خان کو خفیہ اداروں نے یہ غلط تاثر دیا تھا کہ اگر الیکشن ملک میں کروا دئیے گئے تو مسلم لیگ ملک کے دونوں حصوں یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان میں اتنی اکثریت سے سیٹیں جیت جائے گی کہ مرکز میں وہ اپنی حکومت بنا سکےں‘ کسی منچلے نے کیا خوب کہا ہے کہ ملک میں موجود اپوزیشن سیاسی جماعتیں حکومت کی اتنی زیادہ دشمن نہیں ہیں کہ جتنی زیادہ دشمنی کا سامنا اسے مہنگائی کی لہر کی طرف سے ہے اگر تو وہ مہنگائی کے جن کو فوراً قابو کر لیتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے پر اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر اس صورت میں اپوزیشن اس کے اقتدار میں باقی ماندہ عرصے کے دوران اس کے سر پر بری طرح سوار رہے گی اور اسے سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی ۔تنقید برائے تنقید یا اپوزیشن برائے اپوزیشن دنیا کا آسان ترین ترین کام ہے عوام اپوزیشن کو اس وقت مانیں گے کہ جب وہ کسی مسئلے پر صرف تنقید کرنے کے بجائے اس کو بہتر طریقے سے حل کرنے کا کوئی رستہ بھی بتادے‘ کوئی تجویز بھی سامنے لائے ۔ موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجئے گا اپوزیشن نے آپس میں سر جوڑ کر ایک ڈیموکریٹک الائنس تو ضرور بنا لیا ہے پر اس نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ اگر اس کی سیاسی تحریک کے دباو¿ کے نیچے آکر حکومت وقت کسی نہ کسی طریقے سے سے فارغ ہو جاتی ہے اور ان کا یہ ڈیموکریٹک الائنس الیکشن کے ذریعے بر سرِ اقتدار آ جاتا ہے تو وہ ملک کو درپیش مختلف مسائل کو کیسے حل کریں گے ان کے پاس آخر کون سی ایسی گیڈر سنگھی ہے کہ جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے جو ملک واقعی جمہوری اقدار پر چلائے جاتے ہیں ان میں تو اپوزیشن پارٹیوں نے باقاعدہ تفصیلی ہوم ورک کیا ہوتا ہے اور ان کے پاس اس ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے کےلئے متبادل تجاویز موجود ہوتی ہیں جنہیں وہ تیزی سے بدلتے ہوئے ملک کے معاشی حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کر دیا کرتے ہیں لہذا وہ جب بھی الیکشن جیت کر برسراقتدار آتے ہیں تو انہیں اپنے منشور کو فوراً سے پیشتر عملی جامہ پہنانے میں کوئی زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اپنے ہاں بدقسمتی سے اس قسم کی کوئی روایت نظر نہیں آتی اور ہمارے حزب اختلاف میں بیٹھے ہوئے سیاسی رہنماو¿ں نے کبھی بھی حکومت وقت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے بہتر تجاویز عوام کے سامنے کبھی بھی نہیں رکھیں اور نہ ہی ان پر بحث و مباحث کا کوئی بندوبست کیا ۔