اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ مرزا غالب کے پیش نظر کون سا مسئلہ تھا جب انہوں نے یہ جملہ فرمایا تھا کہ”اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے “ پاکستان کے لئے تو موجودہ سال اچھا بالکل نہ تھا موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ملک کی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لئے لئے جو اقدامات اٹھائے تھے کورونا وائرس نے ان سب پر بری طرح سے پانی پھیر دیا انٹرنیشنل مانیٹرننگ فنڈ کی پیشنگوئی کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان سمیت عالمی معیشت کے سکڑنے کے قوی امکانات ہیں پاکستان میں بے روزگاری بڑھے گی ¾مہنگائی کی شرح 8.8 فیصد ہوگی ¾جاری خسارہ جی ڈی پی کے 2.5 منفی کے برابر ہوگا ¾عالمی معیشت 4.4 فیصد گر جائے گی ¾بھارت ¾اٹلی ¾سپین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ¾ چین کی 1.2 فیصد شرح نمو متوقع ہے ¾کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لئے جہاں تک حکمت عملی کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہر ملک میں سائنس دانوں اور سیاستدانوں کی سوچ میں واضح فرق نظر آتا ہے سیاست دانوں کے خیال میں اگر ملک میں مکمل طور پر لاک ڈاو¿ن کیا جائے گا تو خدشہ یہ ہے کہ عوام الناس بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنے لگیں گے جب کہ سائنسدانوں کا موقف یہ ہے کہ اس مرض کا اگر کوئی علاج ہے تو وہ صرف اسی صورت میں ہے کہ کہ شہروں کو مکمل طور پر لاک ڈاو¿ن کر دیا جائے جہاں تک اس مرض کی ویکسین کی دریافت کا تعلق ہے تو اس کا تو ابھی تک دور دور تک کوئی نشان نہیں ویسے بھی اس قسم کی مہلک وبا کی ویکسین کو دریافت کرنا خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے وقت اور مختلف قسم کے تجربات اور تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اگر کوئی ویکسین بغیر مناسب انویسٹی گیشن کے مارکیٹ میں لائی جائے گی تو وہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف بات ہوگی امریکہ کے صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے اس کی ویکسین دریافت کر لی ہے ¾پر ان کی باتوں کو کوئی بھی اس لئے سنجیدہ نہیں لیتا کہ وہ ہر مشکل سے مشکل بات کو ہنسی میں ٹالنے کے عادی ہیں ¾کئی لوگوں کے خیال میں کورونا وبا نے دنیا میں سرکاری و نجی دفاتر کے ورکنگ کلچر کو بالکل بدل دیا ہے اور کئی ایمپلائرز اب یہ سوچ رہے ہیں کہ دنیا کے کئی کام گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کئے جا سکتے ہیں ¾ان کو سرانجام دینے کے لئے دفتر سجانے اور دفاتر کے کئی اضافی اخراجات برداشت کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے جیسا کہ بجلی ¾فون ¾ٹرانسپورٹ کے ماہانہ بل وغیرہ وغیرہ ¾موجودہ حالات میں حکومت اور عوام کے درمیان رابطوں میں بہتری اور لوگوں کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کرنا ضروری ہے اس ضمن میں وزیر اطلاعات صاحب کا کام کافی آسان ہو جائے گا اگر وہ اپنے محکمے کے تمام متعلقہ انفارمیشن افسروں کویہ بات واضح کر دیں اور ان کو یہ ہدایات جاری کر دیں کہ وہ جس وزارت کے ساتھ منسلک ہیں اس منسٹری میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں پرنٹ میڈیا میں مضمون لکھیں اور دستاویزی فلمیں بنائیں ان کو چاہئے کہ وہ ان وزارتوں کی کارکرد گی کی پبلسٹی پر زیادہ زور دیں اور اگر کسی نقص کی کوئی عوامی حلقہ نشا ندہی کرے تو اس کا تسلی بخش جواب وہ اخبارات میں پریس ریلیز کے ذریعے شائع کریں ۔اس سے نہ صرف لوگ حقائق سے آگاہ ہوں گے بلکہ انہیں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ملنے والے ریلیف کے حصول سے متعلق طریقہ کار بھی سمجھ آئے گا۔