سیاسی افہام و تفہیم

پاکستان میں سیاسی افہام و تفہیم اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے اگر ایک دوسرے کی عزت و احترام کیا جائے تو اِس سے سیاسی تناو¿ میں کمی آ سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں حزب اختلاف کی جماعتیں اگر وزیراعظم عمران خان کو منتخب ہونے کی بجائے سلیکٹیڈ (چنیدہ) کہنا ترک کر دیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ کا احترام کریں۔ اِسی طرح عمران خان اور اُن کی جماعت تحریک انصاف کی طرف سے بھی خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے خلاف چوروں کے گروہ جیسی اصطلاح کا استعمال ترک کر دیا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ درحقیقت حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایک ایسا طرزعمل اختیار کئے ہوئے ہیں جس میں اُنہیں سوائے بدنامی کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا اور نہ ہی اِس سے پاکستان کا بھلا ہو رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تصادم اور الزام تراشی کی سیاست نے پاکستان کے مسائل و مشکلات اور بحرانوں میں اضافہ کیا ہے اور اِس وقت پاکستان کی ضرورت قومی سطح پر سیاسی افہام و تفہیم کی ہے۔ مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی تنازعات حل ہو سکیں۔
جمہوریت اور بالخصوص پارلیمانی جمہوریت کی بات ہو تو حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے۔ اِسی طرح پارلیمانی جمہوریت میں صرف حکومت ہی سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ اس میں حزب اختلاف کا بھی ایک خاص و اہم کردار ہوتا ہے۔ حکومت ایسی پالیسیاں بناتی ہے جس سے ملک کے مستقبل کا تعین ہوتا ہے جبکہ حزب اختلاف اپنے کردار سے حکومت کی کارکردگی کا احتساب جاری رکھتی ہے اور حکومت کی وضع کردہ حکمت عملیوں میں خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اِس طرح کسی ملک میں تعمیروترقی کا نظام آگے بڑھتا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف باوجود سیاسی اختلافات بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی نجی یا ذاتی زندگیوں پر حملے نہیں کرتے۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بھی ہیں اور اُنہیں ہر قسم کی سیاسی سوچ اور نظریات رکھنے والوں کی قیادت کرنی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کا بدعنوانی کے خلاف بیانیہ اِس قدر شدید ہے کہ اِس سے فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے اور ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی رک گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کی بنیاد پر نفرت کرنے لگے ہیں اور عام آدمی کی معاشی و اقتصادی پریشانیوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اِسی طرح حزب اختلاف جب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو وہ بھی اپنی حدود اور الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتی جس کی وجہ سے اِس پوری صورتحال میں کسی بھی فریق (حکومت‘ حزب اختلاف اور عوام) کا فائدہ نہیں ہو رہا۔
پاکستان کے سیاسی عدم استحکام سے ملک دشمن فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور پاکستان کے دشمن بہت ہیں جو چاہتے ہیں کہ سیاسی تناو¿ برقراررہے۔ وزیراعظم عمران خان اور نواز شریف کی حکمت عملی سے عیاں ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پھیلا کر زیادہ بڑے پیمانے پر نقصان کر رہے ہیں۔ درحقیقت حزب اختلاف کا حزب اقتدار اور حزب اقتدار کا حزب اختلاف کو اپنا دشمن سمجھنا غلط ہے بلکہ یہ تو ایک سکے کے دو رخ ہیں اور اِن دونوں کے اطمینان ہی سے پاکستان کی اطمینان بخش ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ دوسری کوئی ایسی صورت نہیں جس میں محاذ آرائی اور تناو¿ بھری سیاست کے ساتھ پاکستان ترقی کر سکے۔
سال 2018ءمیں ہوئے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے نامزد انتخابی اُمیدواروں کو مجموعی طور پر 1 کروڑ 29 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اگر ہم زیادہ نہیں تو اِنہی ایک کروڑ لوگوں کے مو¿قف کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بات بڑی حد تک واضح ہو سکتی ہے جو چاہتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی آئے اور اشیائے خوردونوش سمیت بجلی و گیس جیسی یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔ نواز لیگ حکومت کی کارکردگی کا احتساب چاہتی ہے جس نے مہنگائی کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ سیاسی افہام وتفہیم سے نہ صرف حکومت و حزب اختلاف کے درمیان فاصلے ختم ہوں گے بلکہ اِس سے تعلقات میں پیدا ہونے والی خرابیاں بھی دور ہو جائیں گی اور جمہوریت کا عوام کے بہترین مفاد میں آگے بڑھنے اور ارتقائی سفر جاری رہے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)