خلفشار کا شکار معاشرہ

یہ ہمارے کس قسم کے سیاست دان ہیں کہ ان کو یہ خیال تک نہیں کہ ہمارے دشمن نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے وہ ساحل مکران پر بھی حملے کر رہا ہے اور شمالی وزیرستان میں بھی اس نے ہمارے خلاف سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے ‘لائن آف کنٹرول کو تو خیر وہ ایک عرصہ دراز سے گولہ باری کا نشانہ بنا رہا ہے ‘ابھی اگلے روز ہی بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں ہمارے دشمن نے ہمارے کئی جواں سال بہادر پاکستانی فوجیوں کو سازش کا نشانہ بنایا ‘ ہمارے سیاستدان آپس میں مشت و گریباں ہیں ان کو ملک کی سرزمین کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں کتنا اچھا ہوتا اگر اپوزیشن والوں نے افواج پاکستان کے ان 20 شہدا ءسے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو گزشتہ جمعرات کے دن شمالی وزیرستان اور کوسٹل ہائی وے پر شہیدہوئے اپنا جلسہ ملتوی کر دیا ہوتا کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہ ہوادشمن اچھی طرح جان چکا ہے کہ اس ملک کو زک پہنچانا کتنا آسان ہے کیونکہ اس کے سیاست دانوں میں خلفشار ہے انتشار ہے اور ان کو اس ملک کی سلامتی سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ‘ایک سیاستدان نے یہ کہا ہے کہ وہ دسمبر سے پہلے پہلے اس حکومت کو سمندر میں ڈبو دیں گے دوسرے سیاستدان کا فرمان ہے کہ حکومت کی اقتدار میں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف ٹیلی ویژن سکرین پر آکر ایسے غیر محتاط قسم کے بیانات دیتے ہیں اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے کیا ان کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ اس قسم کے بیانات دیکھ کر ملک کی نئی نسل کو کیا پیغام دینا چا ہ رہے ہیں ان کی کس قسم کی ذہنی اور سیاسی تربیت کر رہے ہیں ذیل کی سطور میں ہم ایک دو واقعات کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان زبان کے مناسب استعمال کے بارے میں میں سر ونسٹن چرچل اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاگ ھیمرشولڈ سے منسوب مندرجہ ذیل واقعات سے سبق کیوں نہیں حاصل کرتے ‘دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کا سر پھرا فاشسٹ ڈکٹیٹرہٹلر روزانہ اپنی تقریر میں برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ایک دن جب اخباری نمائندوں نے چرچل کی توجہ ہٹلر کی دشنام طرازیوں کی طرف مبذول کرائی اور ان سے ان پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو چرچل نے دو لفظوں میں اس کا یہ جواب دیا کہ ایسا لگتا ہے ہٹلر کی پرائمری ایجوکیشن اچھی نہیں ہوئی اب آپ ذرا غور کریں کہ اس ایک شائستہ قسم کے جملے نے ہٹلر کے غبارے سے ساری ہوا نکال دی اسی طرح جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اور اس وقت کے سوویت یونین کے وزیراعظم نکتیا خروشیف تقریر کر رہے تھے ‘ان کے بارے میں بھی مشہور تھا کہ وہ سر پھرے قسم کا آدمی ہے اس نے اپنی تقریر کے دوران جوش خطابت میں اقوام متحدہ کے اس وقت کے جنرل سیکرٹری ڈاگ ہیمرشولڈ کے بارے میں کتے کا لفظ استعمال کر دیا ہیمرشولڈ نہایت پڑھا لکھا اور ٹھنڈے مزاج کا آدمی تھا جب جنرل اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا اور اخباری نمائندوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے سوویت وزیراعظم کے ان کے بارے میں مندرجہ بالا ریمارکس پر تبصرہ کرنے کو کہا اور ان سے پوچھا کہ وہ اس پر خاموش کیوں رہے تو انہوں نے یہ کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ میری پرائمری ایجوکیشن سویت وزیر اعظم کی پرائمری ایجوکیشن سے بہتر انداز میں ہوئی ہے ۔حقیقت یہ ہے قومی سیاست میں رواداری اور صبر و تحمل کا مادہ نہ ہونے برابر ہے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ایک وقت تھا کہ سیاسی منظر نامے پر ایسے بڑے نام موجود تھے جن کے اثرات ملکی سیاست پر نمایاں نظر آرہے تھے یہ ان شخصیات کا اثر ہے کہ جمہوری رویئے آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں تاہم موجودہ حالات میں جس طرح سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف غیر محتاط زبان استعمال کر رہے ہیں اس کاراستہ ضرور روکنا ہوگا۔