اس ملک کے غریبوں کے دن کب پھریں گے ‘ 1947ءسے لے کر آج تک تو اس ملک میں رہنے والی ایک بڑی آبادی کے لوگوں کی معاشی زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے مالی اور معاشی میدانوں میں کوسوں میل آگے بڑھ چکے ہیں ہمارے ملک کا خاصہ یہ رہا ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے حکمرانوں کی معاشی حالت تو ہزار درجہ بہتر ہوئی ہے پر جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے انکی مالی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے نہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کی معاشی حالت کی بہتری کی جانب کوئی معزماری نہیںکی بس اقتدار میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنا وقت گزارنے کی کوئی سبیل نکالی اور یہ ان کی اس ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ یہ قوم غربت و مفلسی کی دلدل میں آج بھی بری طرح پھنسی ہوئی ہے ‘ہر کسی کو بس اقتدار کی پڑی رہی کہ کس حربے سے وہ طولانی ہو جائے ایوان اقتدار میں بعض لوگوں نے کئی کئی باریاں لگائیں پر اب بھی ان کا عوام پر حکومت کرنے سے دل نہیں بھرا جو بھی اقتدار میں آیا اس نے کبھی بھی یہ نہ سوچا کہ اس ملک کا عام محنت کش آدمی اگر بیمار پڑ جائے اور بستر پر لیٹ جائے تو اس کے دال دلیا کا بندوبست کون کرے گا اس کے علاج معالجے کا کون انتظام کرے گا اس ملک کے عام آدمی کی بنیادی ضروریات زندگی جیسا کہ دو وقت کا کھانا رہنے کیلے سر پر چھت سفر کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ اس کے بچوں کیلئے مناسب تعلیم کا انتظام وغیرہ کس کی ذمہ واری ہے ، محض آئین پاکستان کے صفحات میں یہ لکھ دینے سے تو بات نہیں بنتی کہ یہ سب ریاست کی ذمہ واریاں ہیں حکمرانوں کو ان بنیادی ضروریات زندگی کی عوام کو فراہمی کا عملی ثبوت بھی دینا ہوتا ہے جو افسوس صد افسوس آج تک کسی حکمران نے نہیں دیا حیرت ہوتی ہے عوام پر بھی کہ بار بار سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے باوجود وہ ان کے جھانسے میں ہر مرتبہ بہ آسانی آ جاتے ہیں اور وہ انہی کو بار بار اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں اگر ایک طرف ہمارے حکمرانوں نے عوام الناس کے اخلاقیات کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی تو دوسری طرف انہوں نے ملک میں میں تعلیم خصوصا ًسائنسی تعلیم کے فروغ کےلئے بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ‘ لہٰذا سائنسی میدان میں بھی ہماری پوزیشن بڑی پتلی ہے ہمارا دین ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ریسرچ کرو کائنات کی تسخیر کرو دیکھو قدرت نے تمہارے لئے کتنے بے بہا خزانے کائنات میں سجا رکھے ہیں ان سے فائدہ اٹھاﺅ‘ اس صحیفہ کائنات کے مطالعہ کے بعد اہل مغرب لوہے تانبے بارود اور دیگر خزائن ارضی سے فائدہ اٹھا کر فلک علم وہنر پر آفتاب بنے ہوئے ہیں ‘ہواﺅں میں اُڑ رہے ہیں دریاو¿ں میں تیر رہے ہیں عمل تبخیر سے ریلیں دوڑا رہے ہیں آنے والے حوادث سماویہ باد و باراں کی خبریں دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم نے اقوال و اعمال دونوں کو پس پشت ڈال دیا ہے یہ تو آپ مانیں گے کہ آج دنیا ان ممالک سے لرزاں ہے کہ جنہوں نے فولاد سے جہاز طیارے ٹینک اور توپیں بنائی ہیں فولاد کے علم سے آج وہ دنیا پر حاوی ہیں ان کے مقابلے میں وہ قومیں اور ممالک کس قدر کمزور اور اور ضعیف ہیں کہ جو فولاد کے علم سے بیگانہ ہیں ۔ اس وقت بھی اگر تعلیم پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں مربوط ترقی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ حقیقی تبدیلی سامنے آئے جس میں نہ صرف عوام خوشحال ہونگے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔