موجودہ مسائل کا ایک حل

 کانے کو منہ پراگر کانا کہا جائے تو وہ سخت برامناتا ہے عمران خان گیارہ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کے الزامات کے جوابات جس سخت زبان اور لہجے میں دے رہے ہیں وہ یقیناً ان کے مزاج پر گراں گزرتے ہوں گے یہ سلسلہ جو اب چل نکلا ہے اس سے تو لگتا یہ ہے کہ یہ آئندہ الیکشن تک ختم ہو نے والا نہیں نہ جانے تب تک کتنی دھول اور گرد اُڑے اور خدا جانے کتنے چہرے اس سے گندے ہو جائیں سیاستدانوں کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لیناہو گا وہ بہادرشاہ ظفر کا یہ شعر نہ بھولیں کہ
 ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا ہو وہ کیساہی صاحب فہم و ذکا
 جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
 تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ بھر ہی جاتاہے پر زبان سے لگایا گیا گھاو¿ ساری زندگی نہیں بھرتا اس کہاوت میں پنہاں دانش کی تہہ تک اگر ہمارے سیاستدان پہنچ جائیں تو پھر شاید اس ملک کی سیاسی فضا اس قدر مکدر نہ ہو کہ جتنی اب ہو چکی ہے۔ بہتر ہو اگر اب تمام سیاستدان ایک دوسرے پردشنام طرازی کے بجائے صرف ایشوز کو اپنی تقاریر کاموضوع بحث بنائیں کسی بھی جمہوری نظام میں ملک کی گاڑی صرف اسی صورت میں بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی ہے کہ جب اس کے تمام ریاستی پہیے ٹھیک چلیں اور ان میںہم آہنگی ہو اور یہ ہر وزیراعظم کی سیاسی مہارت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اور کس حد تک اور کیسے ان سب کو اپنے ساتھ ملا کر امور مملکت چلاتا ہے ہمارے ایک سابق وزیر اعظم خوا مخواہ بعض ریاستی اداروں سے پنگے لیتے رہے خود بھی ڈوبے اور اس ملک میں جمہوری عمل کو بھی کافی زک پہنچائی وہ بار بار ٹھوکر کھا کر بھی نہیں سنبھلے۔ میاں نواز شریف نے اگر یہ ٹھان لی ہے کہ اب انہوں نے واپس وطن نہیں آنا تو پھر تو اس صورت میں وہ بے شک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنے پاو¿ں پر کلہاڑی مارتے جائیں کہ جس طرح الطاف حسین نے اپنی کشتیاں جلا ڈالی ہیں انہوں نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اس رستے پر کافی کانٹے بچھا دئیے ہیں کہ جس پر چل کر وہ کچھ حد تک اپنی یا اپنی سیاسی پارٹی کی نشاط ثانیہ کر سکتے تھے ہمارا دشمن ہمارے کاندھے تک آن پہنچا ہے اور ایک ہم ہیں کہ روزانہ آپس میں الجھ رہے ہیں اگر اب بھی ہم نے بحیثیت قوم اور سیاسی پارٹی ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا تو اس سے ملک کی سا لمیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ملک کے اندر اور اس کے بارڈر پر دشمن نے ایک مرتبہ پھر وار کرنا شروع کر دئیے ہیں اور اس ملک کو اسی صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے کہ جس کا وہ چند سال قبل بری طرح شکار تھا لگ رہا ہے کہ افواج پاکستان کو ایک مرتبہ پھر تاریخ دہرانی پڑے گی اور ملک دہشت گردی کی اس تازہ ترین لہر کو ختم کرنے کےلئے ایک نئی عسکری مہم شروع کرنا ہو گی تاکہ سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی یہ نئی سازش پروان نہ چڑھ سکے یہ بات اکثر پاکستانیوں کی سمجھ سے باہر کہ آخر حزب اختلاف کو اقتدار میں آنے کی کیا جلدی ہے کیوں وہ تھوڑا اور انتظار نہیں کر لیتی اور کیوں اس نازک موڑ پر ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہے خدا لگتی یہ ہے کس اس کے پاس کوہی چھو منتر بھی تو نہیں ہے جس سے وہ اس ملک کی معاشی حالت کو چشم زدن میں درست کر سکے ‘کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ موجودہ حالات کافی حد تک اس کا اپنا کیا دھراہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ آئندہ الیکشن تک اپوزیشن کا یہ موجودہ سرکس جاری رہے گا اور اس کی وجہ سے ملکی توانائی ضائع ہوتی رہے گی بقول کسے نہ حاصل نہ وصول ملک میں جب انتشارہو گا تو اس کے اندر جاری ترقیاتی کام ٹھپ ہو جائیں گے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔