میاں محمد نواز شریف کو کیا پی پی پی والوں نے کراچی کے جلسے کو خطاب کرنے سے روکا یا انہوں از خود گوجرانوالا کے جلسے میں اپنی تقریر پر منفی عوامی ردعمل آنے پر یہ فیصلہ کیا کہ اسی میں ان کی بہتری ہے کہ دوسرے جلسے سے وہ کنارہ کشی کر لیں ؟جتنے منہ اتنی باتیں ۔کتنی عجیب بات ہے یہ سیاسی لوگ حکومتی امور میں ایسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا رونا تو بہت روتے ہیں لیکن سول سروس پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں الیکشن جیت کر یہ لوگ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ جیسے انہوں نے یہ ملک بس اب پانچ برسوں کےلئے ٹھیکے پر لے لیا ہے اور تمام سول ادارے جیسے اب ان کے گھر کی لونڈیاں ہیں لہٰذا اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے تمام ادارے اپنی حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں تو انہیں اس ضمن میں سب سے پہلے خود اس کی مثال قائم کرناہو گی ورنہ پھر بات اس محاورے والی ہو جائے گی کہ ”اور کو نصیحت اور خود میاں فضیحت“۔یک نشد دو شد ‘شنید ہے کہ جماعت اسلامی بھی اب یکم نومبر سے کھل کر حکومت کے خلاف میدان عمل میں کودنے والی ہے اور لگ یہ رہا کہ سر دست یہ سولو فلائٹ ہو گی ہاں یہ البتہ اور بات ہے کہ کل کلاںہوا کا رخ دیکھ کر وہ یہ فیصلہ کر لے کہ اس نے اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالناہے‘ سیاست کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک تو اس میں حرف آخر نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور جہاں تک وطن عزیز کی سیاست کا تعلق ہے تو اس میں تو حرف آخر سرے سے موجود ہی نہیں اور جو ایک دفعہ اس میں آیا اس نے پھر مر کر ہی اس کو چھوڑنا ہے، یہ سیاست کا چسکا ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بھلا ٹانگیں قبر میں کیوں نہ لٹکی ہوں وہ اس سے چپکا رہتا ہے جیسے لسوڑے کی لیس۔ بزرگ سیاسی لیڈر جاوید ہاشمی جس حالات میںپوزیشن کے گوجرانوالا میںہونے والے جلسہ میں شریک ہوئے اس پر افسوس بھی ہوا اور دکھ بھی ۔یہ عمر اب آرام کرنے کی ہوتی ہے اور اگر کوئی سیاست دان فالج جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہو تو اسے تو پھر بہت احتیاط درکارہوتی ہے۔ ماضی قریب کی ہم صرف دو مثالیں آپ کو دیتے ہیں‘ جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا کی ابھی صحت کافی اچھی تھی اور وہ اگر چاہتے تو اقتدار میں تا حیات رہ سکتے تھے کیونکہ قوم بھی ان پر جان چھڑکتی تھی پر انہوں نے عمر کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے سیاست سے ازخود سنیاس لے لیا کچھ اسی قسم کی روایت چرچل نے بھی قائم کی تھی اور وہ بھی از خود اقتدار سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ دوسری طرف ہمارے بزرگ سیاست دانوں کو دیکھ لیجئے گا وہ مرزا غالب کے اس معاملے میں سخت پیروی کرتے ہیں کہ
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
۔ ادھر اگر وطن عزیز میں بعض لوگ فوری انتخابات کا تقاضا کر رہے ہیں تو ادھر امریکا میں صدارتی انتخابات چند روز بعدہونے جا رہے ہیں ‘ٹرمپ اپنے مخالف امیدوار کے پیچھے جیسے ہاتھ دھو کر پڑے ہوں انہوں نے اس کے بارے میں یہاں تک اعلان کر دیا ہے کہ اگر بائڈن الیکشن جیت گیا تو وہ امریکا چھوڑ دیں گے ۔لگتا ہے کہ امریکہ میں بھی جمہوری رویئے کمزور پڑنے لگے ہیں اور یہ روایت موجودہ صدر ٹرمپ نے ڈال دی ہے۔