امریکی صدراتی انتخابات

امریکہ کے صدراتی اِنتخابات کے لئے رائے دہی (ووٹنگ) کا پہلا مرحلہ 3 نومبر سے شروع ہوگا۔ تکنیکی طور پر 50 ریاستوں پر مشتمل ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہر ریاست صدراتی انتخابات کے عمل میں حصہ نہیں لیتی بلکہ تین نومبر سے قبل تک ووٹر الیکٹورل کالج کے لئے ووٹ دیتے ہیں اور پھر یہ الیکٹورل کالج صدراتی اُمیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ نئے سال (تین جنوری) کے روز امریکی کانگریس کے نئے اراکین حلف اٹھائیں گے اور چھ جنوری کو نئے صدر کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا لیکن اگر الیکٹورل ووٹوں سے کسی بھی اُمیدوار کی برتری ثابت نہ ہوئی تو ایوان بالا (کانگریس) کے اراکین ہی صدر کا انتخاب کریں گے جو امریکی آئین میں کی گئی 12ویں ترمیم کا حاصل ہے کہ اِس میں کانگریس کے ہر رکن جو کسی نہ کسی ریاست کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے اُسے ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے یوں کانگریس کے 26 اراکین کی اکثریتی رائے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب ہو گا جبکہ ایوان بالا ہی نائب صدر کا انتخاب کرے گی۔ الیکٹورل ووٹنگ 8 دسمبر تک مکمل ہونے کی تاریخ طے ہے۔حالیہ انتخابی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن رواں سال کی صدارتی دوڑ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت آگے ہیں۔ وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ سخت ٹکر والی ریاستوں میں بھی سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو ریکارڈ توڑ انتخابی فنڈز جمع کرنے کی وجہ سے ایک بڑا مالی فائدہ بھی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ آخری مرحلے میں اپنے انتخابی پیغامات کے ساتھ میڈیا پر چھائے رہیں گے۔ انتخابی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید ٹرمپ یہ انتخابات ہار جائیں گے۔ نیٹ سلور کے فائیو تھرٹی ایٹ ڈاٹ کام کے بلاگ کے مطابق بائیڈن کے جیتنے کے امکانات ستاسی فیصد ہیں جبکہ ڈسیزن ڈیسک ہیڈ کوارٹر کا خیال ہے کہ بائیڈن کے جیتنے کے امکانات تراسی فیصد سے زیادہ ہیں۔ اگرچہ گزشتہ صدارتی انتخاب میں ہلیری کلنٹن کی جیت کے بارے میں بھی ایسی ہی پیش گوئیاں کی گئیں لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر انتخابی جائزوں کو غلط ثابت کریں گے؟ کیا تاریخ خود کو دہرائے گی؟سال 2016ءمیں صدارتی انتخاب سے گیارہ روز پہلے اُس وقت کے ’ایف بی آئی‘ کے سربراہ جیمس کامی نے ہلیری کلنٹن کے خلاف دوبارہ تحقیقات شروع کرنے کی بات کی تھی۔ یہ معاملہ ہلیری کلنٹن کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے نجی ’اِی میل سرور‘ کے استعمال کا تھا۔ اس کے بعد یہ معاملہ تقریباً ایک ہفتہ سرخیوں میں رہا‘ جس کے بعد جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں نئی جان آ گئی تھی‘ 2016ءکے انتخاب کو دیکھیں تو قومی سطح کی سبقت بے معنی ہو گئی تھی اور ریاستی سطح کے سروے بھی غلط ثابت ہوئے تھے۔ صدارتی انتخاب میں ووٹر کون ہو گا اس کا اندازہ لگانا ایک چیلنج ہے اور پچھلی بار کچھ انتخابی سروے یہی اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ان سفید فام امریکیوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا جو ڈگری یافتہ نہیں ہیں جس کا اندازہ نہیں لگایا گیا تھا تاہم اس مرتبہ اخبار نیو یارک ٹائمز نے اندازہ لگایا ہے کہ بائیڈن کا موجودہ مارجِن انہیں 2016ءجیسی صورتحال سے بچائے گا تاہم 2020ءمیں سروے کرنے والوں کے سامنے کچھ نئی رکاوٹیں ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے امریکی پہلی بار میل کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن ری پبلکن پارٹی کے رہنما پہلے سے ہی میل پر ہونے والی ووٹنگ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس میں انہوں نے دھوکہ دہی کا خدشہ ظاہر کیا ہے تاہم ڈیموکریٹس نے اسے ووٹرز کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اگر رائے دہندگان اپنے فارم کو غلط طریقے سے پُر کرتے ہیں یا مکمل طور پر اس پر عمل نہیں کرتے ہیں یا میل کی ڈیلیوری میں تاخیر یا مداخلت ہوتی ہے تو جائز ووٹوں کو بھی خارج کیا جا سکتا ہے وہیں پولنگ بوتھ یا عملہ کم ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کرانا مشکل ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ جنہیں انتخابی سروے میں ممکنہ ووٹر سمجھا جارہا تھا وہ ووٹ ڈالنے میں دلچسپی کا مظاہرہ ہی نہ کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان تقریبا دو ہفتے قبل ہونے والی بحث کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے حالات اچھے نہیں رہے ہیں۔ انتخابی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا جارحانہ اور دخل اندازی کرنے والا طریقہ مضافاتی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو پسند نہیں آیا تھا اور ان علاقوں کی خواتین کے ووٹ کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس دوران بائیڈن نے اپنی بڑھتی عمر کے بارے میں خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی بحث کے بعد بننے والی اپنی شبیہہ کو تبدیل کرنے کا موقع گنوا دیا۔ انہوں نے دوسری بحث سے انکار کر دیا کیونکہ یہ بحث آمنے سامنے نہیں بلکہ ورچوئل ہو رہی تھی۔ اب ان کے پاس جمعرات کو ایک اور موقع ہے۔ اگر اس بار ڈونلڈ ٹرمپ پُرسکون نظر آتے ہیں اور صدر کی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور بائیڈن کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ٹرمپ کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔ اگرچہ انتخابی سروے بائیڈن کو آگے دکھا رہے ہیں لیکن بہت ساری ریاستیں ایسی ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں الیکٹورل کالج ان کے حق میں کام کر سکتا ہے۔ پچھلی بار ڈونلڈ ٹرمپ مقبول ووٹوں سے پیچھے ہو گئے تھے لیکن الیکٹورل کالج میں انہوں نے جیت حاصل کر لی تھی۔ دراصل جب امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو وہ درحقیقت عہدیداروں کے ایک گروپ کو ووٹ دیتے ہیں جو انتخابی کالج کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ الیکٹرز ہوتے ہیں اور ان کا کام صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرنا ہے۔ ہر ریاست سے الیکٹرز کی تعداد اس ریاست کی آبادی کے تناسب کے مطابق ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو مشیگن اور وسکونسن جیسی ریاستوں میں کامیابی ملی تھی۔ اس بار یہ ریاستیں ان کی پہنچ سے باہر نظر آ رہی ہیں۔ اگر ٹرمپ باقی جگہوں پر سبقت حاصل کر لیتے ہیں اور پنسلوانیا اور فلوریڈا جیسے مقامات پر کم پڑھے لکھے سفید فام اِن کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو ٹرمپ اس بار بھی جیت سکتے ہیں جو بائیڈن اب تک نظم و ضبط کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اب چاہے یہ انتخابی مہم اسی طرح سے تیار کی گئی تھی یا کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے ایسی رہی ہے۔ بائیڈن عام طور پر اپنے غیر منطقی تبصرے کے لئے مشہور ہیں لیکن اس بار وہ ایسے کسی بھی تنازعے سے دور نظر آئے ہیں لیکن اب بائیڈن کی انتخابی مہم تیز تر ہونے والی ہے۔ ایسی صورتحال میں غلط بیانی کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جس کا خمیازہ انہیں انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عرشہ اظفر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)