پاکستان کا تجارتی خسارہ ماہ ستمبر کے دوران بیاسی کروڑ ڈالر جبکہ اگست میں ایک ارب بہتر کروڑ ستر لاکھ ڈالر تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان کھانے پینے اور مشینری درآمد کرتا ہے جس پر بالترتیب باسٹھ فیصد اور اکیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہ اگست میں سٹیٹ بینک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کرنٹ اکاو¿نٹ میں اُنتیس کروڑ ستر لاکھ ڈالر سرپلس ریکارڈ کیا گیا جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ساٹھ کروڑ دس لاکھ ڈالر کا خسارہ ریکارڈ ہوا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جولائی میں پچاس کروڑ آٹھ لاکھ ڈالر کے مقابلے میں کرنٹ اکاو¿نٹ سرپلس میں اِکتہر فیصد کمی ہوئی تھی۔ ماہ ستمبر میں سامان کی درآمد میں چودہ کروڑ ڈالر تک متاثر ہوئی جبکہ ایشیا کی برآمد میں چوالیس کروڑ دس لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ پچھلے مہینے کے مقابلے میں ابتدائی آمدنی میں بھی توازن اکسٹھ فیصد یعنی اُنیس کروڑ ستر لاکھ ڈالر خراب ہوا تاہم ترسیلات زر میں نو فیصد یعنی اٹھارہ کروڑ نوے لاکھ ڈالر اضافے سے اس کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملی۔ توقع ہے کہ موجودہ اکاو¿نٹ کا خسارہ مالی سال اکیس میں ڈھائی سے تین ارب ڈالر ہوجائے گا کیونکہ عالمی سطح پر ’کورونا وبا‘ سے متعلق لاک ڈاو¿ن اور پابندیوں میں بھی نرمی ہے۔ جولائی سے اگست تک پاکستان کا مجموعی کرنٹ اکاو¿نٹ سرپلس ساڑھے اَسی کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا جہاں مالی سال 2019-20ءکے اسی عرصے میں ایک ارب اکیس کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا تھا واضح رہے کہ کرنٹ اکاو¿نٹ خسارے کو سرپلس میں تبدیل کرنے والا اہم عنصر درآمدات میں تیزی سے کمی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران ملک میں ترسیلات زر میں بھی مسلسل اِضافہ رپورٹ ہوا تھا اور ستمبر کے مہینے میں اس مد میں 2ارب 30کروڑ ڈالر وصول ہوئے تھے۔سٹیٹ بینک نے اپنے اعداد و شمار میں بتایا تھا کہ پاکستان کو ستمبر میں ترسیلات زر کی مد میں 2ارب 30کروڑ ڈالر موصول ہوئے جس کی بڑی وجہ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ یورپ اور امریکہ میں کورونا پابندیوں میں بتدریج نرمی ہے جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ ستمبر مسلسل چوتھا مہینہ تھا جس میں ملک میں ترسیلات زر کی مد میں 2ارب ڈالر سے زائد آئے‘ ستمبر میں ترسیلات ِزر میں گزشتہ برس ستمبر کے مقابلے میں اکتیس اعشاریہ دو فیصد اور اگست کے مقابلے میں نو فیصد اضافہ ہوا تھا۔کورونا وبا تن تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ ایشیائی ممالک کی معیشت عالمی وبا سے قبل بھی بدترین حالات سے گزر رہی تھی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اِس بارے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ایشیائی خطہ گذشتہ چند دہائیوں کی بدترین معاشی بدحالی سے گزر رہا ہے۔“ اور یہی وجہ ہے کہ خطے کی مجموعی پیداواری اضافے کے تخمینہ جات (اہداف) ایک مرتبہ پھر تبدیل کئے گئے ہیں اور اس مرتبہ انہیں منفی 1.6فیصد سے اور بھی کم کر کے منفی 2.2 فیصد کر دیا گیا ہے تاہم ’آئی ایم ایف‘ کے مطابق اس سے اگلے سال حالات میں بہتری آنے کے امکانات روشن ہیں اور توقع ہے کہ خطے میں مجموعی پیداوار سات فیصد تک بڑھ جائے گی۔ آئندہ سال میں خطے کی ترقی میں چین کا اہم حصہ ہوگا کیونکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی معاشی سست روی ختم ہو رہی ہے مگر پھر بھی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کیونکہ انڈیا‘ فلپائن اور ملائیشیا ابھی بھی کورونا وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ کا کہنا ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کافی گہرے ہیں۔ آئی ایم ایف کا اشارہ کم تر سرمایہ کاری کی جانب بھی تھا جس کے اثرات اس دہائی کے وسط تک سامنے آئیں گے۔ اس خطے میں ممالک نہ صرف کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ انہیں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا بھی سامنا ہے۔ آئی ایم ایف برائے ایشیا پیسیفک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’برآمدات پر چلنے والے اس خطے کے لئے یہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور آگے چل کر یہ بہت بڑا خطرہ ہوگا۔ عالمی مالیاتی فیصلہ سازوں کو فکر ہے کہ بڑے ٹیکنالوجی کے مراکز ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے اور نہ صرف چین اور امریکہ میں‘ بلکہ دیگر اُن جگہوں پر بھی جہاں ہائی ٹیک تجارت میں کمی ہوگی تو نتیجے نکلے گا کہ قومی پیداوار بہتر نہیں ہو سکے گی۔ رواں ہفتے کے شروع میں چین کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں جولائی سے ستمبر تک کی سہ مائی میں گذشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے میں 4.9فیصد بہتری آئی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ہر طرف منفی گروتھ کے مقابلے میں چین کو ایک نایاب مثبت صورتحال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کو توقع ہے کہ یہ خطہ 2021ءمیں 6.9فیصد کی شرح سے ترقی کر سکتا ہے تاہم اس کے لئے کئی عناصر کو پورا ہونا ہوگا‘ بشمول اس کے کہ وائرس پر قابو پا لیا جائے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ درست پالیسیوں اور ضرورت کے موقع پر بین الاقوامی حمایت ساتھ ہو تو ایشیا کے معاشی انجن مل کر کام کر سکتے ہیں اور خطے کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ تاہم مشکل مرحلہ یہ ہوگا کہ ایشیائی معیشتوں کو برآمدات پر انحصار کم کرنا پڑے گا جس میں وقت لگے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔تحریر: عنبر شمسی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)