امیگریشن کو فول پروف بنانے کی ضرورت

حال ہی میں جلال آباد میں پاکستانی ویزے کیلئے بھگڈر میں 15 افراد کے جاں بحق ہونے سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں پہلی تو یہ کہ علاج معالجہ ‘تعلیم کے حصول اور کاروبار کیلئے افغانیوں کا پاکستان پر کافی انحصار ہے اور دوسری یہ کہ پاکستانی ویزے کے افغانستان میں اجراءکے ضمن میں وہاں پاکستانی سفارت خانے میں مناسب سہولیات کا فقدان ہے ‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے پاسپورٹوں پر افغان باشندے یورپ اور امریکا پہنچ چکے ہیں اسی لئے یہ از حد ضروری ہے کہ پاکستانی ویزا کے حصول کے خواہش مند افغانیوں کے وطن عزیز کیلئے ویزا کی درخواستوں کی کافی چھان پھٹک ہو اور پھر جب وہ پاکستان کی حدود میں ایک دفعہ آ جائیں تو ایسا میکنیزم موجود ہونا ضروری ہے کہ جس سے بہ آسانی پتہ چل سکے کہ وہ اپنے ویزے کی معیاد پوری ہونے کے بعد اپنے ملک واپس جا چکے ہیں یا نہیں وقت آ چکا ہے کہ اب پاکستان میں آنے جانے کیلئے ان کی آزادی والا سلسلہ ختم ہو جائے‘ اس آزادی کی وجہ ہے کہ اس ملک نے ان کے ہاتھوں اب تک بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے ۔اک عرصہ دراز سے ہم لکھ رہے ہیں کہ افغانیوں کے پاکستان میں داخلے کے نظام کو ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کھلے بارڈر کی ایک بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ اس سے ہمارے ازلی دشمن نے ہر دور میں ناجائز فائدہ اٹھایا اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ افغانیوں کی پاکستان میںداخلے اور پھر ان کے یہاں قیام کے نظام کو فول پروف بنایا جائے اس میں کسی سیاسی مصلحت کو اہمیت نہ دی جائے ۔یہ متعلقہ محکموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمان کو ہر ماہ کے اختتام پر مطلع کیا کریں کہ پاک افغان بارڈر پر جو باڑ لگائی جا رہی ہے اس کاکتنا فیصد کام باقی رہتا ہے ‘پاک افغان بارڈرہمیشہ تاریخی لحاظ سے ایک بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اور آج کل اور مستقبل میں اس سرحدی علاقے کی اہمیت میں کئی گناہ اضافہ ہوگا ‘سی پیک کی وجہ سے اس خطے کے ذریعے چین دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ معاشی طور پر کافی قریب ہو جائے گا جو قدرتی بات ہے اس کے سیاسی اثر و رسوخ اور قدو قامت میں اضافے کا باعث بنے گا اور یہ بات امریکہ کو اور اس کے اتحادیوں کو ہرگز گوارا نہیں کہ دنیا میں ان کی بالادستی پر کوئی اور ملک حاوی ہو کسی زمانے میں سوویت یونین مغربی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا ‘سی آئی اے نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا اور عظیم سویٹ امپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کئی حصے بخروں میں تقسیم ہو گئی ۔جب 1949 ءمیں چین سرخ انقلاب سے ہمکنار ہوا تو کسی بھی مغربی ملک کے یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ماو¿ زے تنگ کی قیادت میں آزاد ہونے والا یہ عظیم ملک ایک بڑی ایٹمی اور معاشی طاقت بن جائے گا کہ امریکہ جیسی سپر پاور بھی معاشی طور پر اس کی غلامی قبول کرلے گی ان دنوں کمیونسٹ بلاک میں صرف سوویت یونین کا ہی طوطی بولتا تھا اور چین کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی تھی چینی قیادت نے خاموشی کے ساتھ اپنے وطن کو جدید سائنسی تقاضوں سے روشناس کرایا اور قوم کے اندر ان تھک محنت کرنے کا ایک ایسا جذبہ پیدا کیا کہ بہت جلد چین ایک عظیم قوت کے طور پر دنیا بھر میں ابھر آیا ‘یہ بات امریکہ اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے کہ پاک افغان بارڈر پر امیگریشن کے قوانین سخت نہ کئے جائیں کیونکہ اس کی آڑ میں وہ باآسانی اپنے ایجنٹ پاکستان کی حدود میں داخل کر سکتے ہیں لہٰذا ضروری ہوگا کہ ہم اپنے امیگریشن سسٹم کو ریگولیٹ کریں اور اسے فول پروف بنایا جائے۔