امریکہ اِنتخابات: غیر یقینی کی صورتحال

 صدراتی اِنتخابات کے سلسلے میں جاری سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں اور صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والا انتخابی معرکہ سخت تنازعے اور کشمکش کا شکار ہے۔ حالیہ امریکی تاریخ کی روشنی میں بات کی جائے تو یہ صدارتی انتخابات سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات میں سے ایک ہوں گے۔ اس بار ہونے والی انتخابی مہمات کے دوران پرجوش ماحول سے ہٹ کر بات کی جائے تو کئی ریاستوں میں رائے دہی کے طریقہ کار کو درپیش قانونی چیلنجز سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ کو سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا ہوسکتا ہے اب جبکہ صدارتی انتخابات میں محض دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں‘ تو امریکہ اور دنیا بھر میں ان صدراتی انتخابات کے حوالے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کیا مذکورہ انتخابات کا نتیجہ آنے کے بعد اقتدار کی منتقلی منظم انداز میں ہوجائے گی یا پھر معاملہ قانونی جنگوں اور تشدد کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ انتخابات کی ہنگامہ آرائی میں کس طرح امریکی جمہوریت اور اس کے آئینی اداروں کو کمزور کیا جارہا ہے۔ اب تک ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن مقبولیت کے تمام قومی اشاریوں میں ٹرمپ سے آگے نظر آرہے ہیں لیکن بیٹل گراو¿نڈ یا سوئنگ اسٹیٹس کہلائی جانے والی ریاستوں میں معرکہ ابھی بھی سخت ہے۔ امریکہ میں صدر کے انتخاب کے لئے الیکٹورل کالج کے طریقہ¿ کار میں یہ ریاستیں سیاسی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہاں یہ سوال ضرور موجود ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی جیتنے والا امیدوار الیکٹورل کالج سے تو اکثریتی ووٹ حاصل کرلے لیکن عوامی ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے گا؟ یہی صورتحال گزشتہ انتخابات میں بھی دیکھی گئی تھی جب ہیلری کلنٹن نے عوامی ووٹوں کی اکثریت تو حاصل کرلی تھی لیکن چونکہ ٹرمپ نے الیکٹورل کالج سے اکثریتی ووٹ حاصل کئے تھے اس لئے وہ کامیاب قرار پائے۔ موجودہ امریکی صدارتی انتخابات غیر یقینی کی صورتحال میں منعقد ہورہے ہیں۔ کورونا وائرس نے اِن انتخابات‘ دنیا پر پڑنے والے اس کے اثرات اور خاص طور سے ووٹر ٹرن آو¿ٹ پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس بات کی پیش گوئی ہو رہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں پولنگ بوتھ کی بجائے پوسٹل بیلٹ کا ریکارڈ حد تک استعمال ہوگا بلکہ اب تک ہونے والی ووٹنگ میں ہم اس کا استعمال دیکھ بھی چکے ہیں۔ یہاں یہ خدشہ بھی سر اٹھانے لگا ہے کہ کیا مختلف ریاستوں کے انتخابی نظام میں اتنی سکت ہے کہ وہ لاکھوں پوسٹل بیلٹ کا بوجھ برداشت کرسکیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مکمل انتخابی نتائج آنے میں کئی دن اور ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ بات ایک ایسے خطرے کی جانب اشارہ کرتی ہے جو امریکہ کے سیاسی حلقوں میں بہت زیادہ زیرِبحث رہا۔ وہ خطرہ یہ ہے کہ اس وقت کیا ہوگا جب انتخابات کے دن ہی کوئی امیدوار خود کو فاتح قرار دے دے جبکہ ابھی پوسٹل بیلٹ کی گنتی باقی ہو‘ جو انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ تواتر کے ساتھ پوسٹل بیلٹ پر تنقید کرتے آرہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پوسٹل بیلٹ جعل سازی کے ذریعے جو بائیڈن کے حق میں استعمال کئے جائیں گے۔انتخابی عمل اور انتخابی نتائج کی قبولیت کے حوالے سے غیر یقینی کی ایک بڑی وجہ خود ٹرمپ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ انتخابات ہار گئے تو شاید وہ نتائج کو تسلیم نہ کریں۔ اس کے علاوہ دونوں جماعتوں کی قانونی ٹیمیں بھی ملک بھر میں انتخابی قواعد کو درپیش چیلنجز میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس وقت بیٹل گراو¿نڈ ریاستوں میں ریکارڈ تعداد میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کچھ کلیدی ریاستوں میں جاری قانونی مقدمات پوسٹل بیلٹ اور ووٹر ٹرن آو¿ٹ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ مقدمات عدالتی نظام میں آگے بڑھتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی محکمہ ڈاک کو ملنے والی وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس اقدام کی وجہ پوسٹل بیلٹ کو محدود کرنا بتائی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اس عمل کو ووٹ کچلنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس پس منظر میں انتخابی نتائج کے متنازع ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ امریکی تجزیہ کاروں کی جانب سے مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ اگر فاتح امیدوار کی برتری بہت کم ہوئی تو اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں قانونی جنگ شروع ہوجائے اور اس دوران ملک غیر یقینی صورتحال میں رہے۔ (مضمون نگار امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)