خاموشی کی زبان

یہ بات بڑی حد تک تو درست ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے پراپیگنڈہ کے تقاضے کافی حد تک بدل چکے ہیں ‘ یہ بھی تو ایک آفاقی حقیقت ہے کہ کئی جگہوں پر خاموشی کی زبان کا استعمال الفاظ کے استعمال سے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے خاموشی بذات خود ایک زبان ہے‘ افسوس کہ اس کے صحیح استعمال سے ہمارے ارباب بست و کشاد بے خبر ہیں ابھی اپوزیشن والوں نے اپنی بات مکمل ہی نہیں کی ہوتی کہ حکومتی معاونین نے جواب آں غزل تیار کر لی ہوتی ہے۔ ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں روزانہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے حزب اختلاف نے حکومت وقت کا دامن اتنی آسانی اسے چھوڑنا بھی نہیں کہ جتنا حکومتی پارٹی کے رہنماو¿ں کا خیال ہے ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن رہا ہی نہیں تمام اپوزیشن پارٹیز کے سرکردہ رہنما میگا کرپشن کیسز میں مبینہ طور پر ملوث بتائے جارہے ہیں‘ بلی کو بھی اگر دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے تو وہ حملہ آور کے حملے سے بچنے کےلئے اس پر اپنے پنجوں سے ضرور حملہ کرتی ہے اپوزیشن کے جلسے آئندہ چند روز میں مزید زور پکڑیں گے‘ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ تفتیشی طریقہ کار ہے جس کی جس کو بہتر بنانے سے عدالتوں میںمقدمات کو تیزی سے نمٹانا ممکن ہو سکتا ہے۔ پولیس کی روش میں بالکل کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی اور نہ اس کا طریقہ کار بدلہ ہے وہ اچھے خاصے جائز کام کو بھی غلط طریقے سے کر کے اسے مشکوک بنا دیتی ہے اور اس وجہ سے عدالتوں میں استغاثہ اپنے کیسز ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے پولیس کا نظام اچھا ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کے نچلے کیڈرز میں براہ راست بھرتی کے طریقہ کار کو صحیح خطوط پر استوار نہ کیا جائے گا نچلے کیڈرز میں گزشتہ چالیس برسوں میں جس طریقہ کار سے پولیس میں بھرتی کی گئی وہ نہایت ہی غلط طریقہ تھا ہر صوبے میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گیں آپ کسی ایم پی اے یا ایم این اے یا سینیٹر یا کسی اور سیاسی طور پر لمبے ہاتھ رکھنے والے شخص کی سفارش پر پولیس کے نچلے کیڈرمیں بھرتیاں کریں گے تو پھر آپ کو اسی قسم کی پولیس سے واسطہ پڑے گا کہ جو آپ کو آجکل پڑ رہا ہے کہ وہ خود اکثر کاموں میں رینجرز یا دوسری پیراملٹری فورس کی محتاج رہتی ہے اگر کسی چوکیدار کو اپنے بچاو¿ کےلئے کسی اور چوکیدار کی ضرورت پڑے تو پھر اس کی چوکیداری سے عوام کو کیا فائدہ‘ امریکہ کا صدارتی انتخاب بھی سر پر آن پہنچا ہے اس کے نتائج کے اچھے برے اثرات برصغیر کی سیاست پر خامخواہ پڑیں گے لہٰذا اس وجہ سے یہ وطن عزیز کے پالیسی ساز اداروں کےلئے بھی بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں صدر ٹرمپ بظاہر تو یہ تاثر دے رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور پر نکال لے گا پر ایک طرف جب وہ وسطی ایشیاا میں معدنی وسائل کے لاتعداد ذخیروں کے انبار کی طرف دیکھتا ہے تو اس کے منہ میں پانی آتا ہے اسی طرح خبط عظمت میں وہ چین کی بالادستی کسی صورت میں بھی دنیا میں نہیں دیکھنا چاہتا اور اس کو خدشہ ہے کہ اگر سی پیک مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس صورت میں پورا خطہ چین کی عملداری میں جاسکتا ہے ‘لہٰذا ان دو حقائق کے پیش نظر وہ فی الحال شاید اس خطے میں مزید رہنا چاہئے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت جملہ سیاستی قیادت پر بھاری بھرکم ذمہ اری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں ایسے حالات کو پروان چڑھانے سے گریز کریں جس سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسے حالات میں کہ جب ملک میں احتجاج کی لہر چل پڑی ہے امن و امان کے حوالے سے لامحالہ مسائل پیدا ہونگے ، جس طرح ایجنسیوںنے وارننگ دی ہے کہ ملک دشمن عناصر تحریبی کاروائی کا خطرہ ہے جو جلسوں جلوسوں میں کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت کی صورت میں حالا ت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ اس حوالے سے احتیاط کی جائے اور جلسے جلوسوں کیلئے جہاں فول پروف سیکورٹی کے انتظامات ہوں وہاں سیاسی جماعتوں کو بھی اس ضمن میں ذمہ داری کا مظاہر کرنا ہوگا۔