بھارت‘ اَمریکہ اور جاپان کی اَفواج تیرہ برس بعد فوجی مشقیں کریں گی جس میں آسٹریلیا کی فوج بھی شامل ہو گی۔ اِن مشترکہ فوجی مشقوں میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ مشق اگلے ماہ (نومبر) میں خلیج بنگال اور بحیرہ¿ عرب میں ہو گی‘ جسے سرکاری طور پر ’مالابار مشق(ایکسرسائز)‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے متعلق چین میں بھی کافی رد عمل سامنے آیا ہے۔ آسٹریلیا کی بات کریں تو وہ 2007ءمیں ہی اس مشترکہ فوجی مشق سے خود کو الگ کر چکا تھا لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس فوجی مشق میں دوبارہ شمولیت کی وجہ سے کواڈ ممالک کی یہ تنظیم زیادہ مضبوط ہوگی۔ اِس سلسلے میں چھ اکتوبر کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں منعقدہ کواڈ یعنی ’کواڈلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ‘ کا اجلاس کئی پہلوو¿ں سے اہم تھا۔ کورونا کی وبا کے دور میں ان چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اپنے آپ میں بہت سارے پیغامات دیتی ہیں۔ یہ ملاقات ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بھی کی جاسکتی تھی لیکن اس کے بجائے ان رہنماو¿ں نے بہ نفس نفیس ملاقات کو ترجیح دی۔ جاپان کے وزیر اعظم یوشیہیڈو سوگا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’انڈو پیسیفک‘ خطے کو آزاد اور خوف سے پاک بنایا جائے لیکن اس کی وجہ صرف ایک ملک چین تھا۔ بھارت اور آسٹریلیا کے مابین تعلقات زیادہ بہتر نہیں رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا نے 2007ءمیں ہی اس فوجی مشق سے خود کو الگ کر لیا تھا لیکن چھ اکتوبر کے اجلاس کے بعد آسٹریلوی وزیر دفاع لنڈا رینولڈس نے کہا کہ ”کواڈ کے چاروں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ’انڈو پیسیفک‘ خطے کے جمہوری ممالک میں ایک دوسرے پر اعتماد بڑھایا جانا چاہئے۔“ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ میریز پاین نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ جس فوجی مشق کا انعقاد ہونے والا ہے اس کے بارے میں بھارت کے وزیر اعظم اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم کے درمیان جون کے مہینے میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ دونوں رہنماو¿ں نے ایک دوسرے کے ساتھ ’ورچوئل میٹنگ‘ کی تھی۔ اجلاس میں بہت سے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مشترکہ مالابار مشق اسی گفتگو کا نتیجہ ہے۔چین کے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے اپنے وزیر خارجہ وانگ یی کے حوالے سے لکھا کہ چاروں ممالک کواڈ کے ذریعے نیٹو جیسا اتحاد تشکیل دینا چاہتے ہیں لیکن چاروں ممالک کا تاحال کوئی مشترکہ بیان سامنے نہیں آیا۔ ملاقاتیں اور اعلانات ہوتے رہے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ انفرادی سطح پر بیانات کی بجائے مشترکہ بیان جاری کیا جائے۔ ایک اجلاس اور بہت سارے بیانات سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مغربی بحرالکاہل میں آسٹریلیا ہمیشہ سے ہی اپنی ’دادا گیری‘ چاہتا ہے۔ اس لئے وہ کواڈ سے باہر تھا۔ جب ’سفید فام کی بالادستی‘ کی بات آتی ہے تو آسٹریلیا میں یہ احساس امریکہ کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے لیکن اب یہی بڑی بات ہے کہ آسٹریلیا اس کواڈ میں واپس آگیا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ بھی چین کے طرز عمل سے پریشان ہے۔ ’مالابار مشق‘ صرف رسمی یا روایتی مشق نہیں بلکہ اس کے ذریعے بھارت‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ چار ممالک ایک ساتھ رہتے ہیں اور آسٹریلیا دوبارہ اِن سے علیحدہ نہیں ہوتا تو یہ چاروں یقینی طور پر خطے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھریں گے۔ بہر حال اس وقت کواڈ صرف فوجی مشقوں تک ہی محدود ہے۔ اتنا ہی کافی ہے کیونکہ کم از یہ تمام ممالک اپنا موقف تو واضح کر رہے ہیں اور ایک پیغام بھی دے رہے ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اِن چاروں ممالک میں سے چین کی مخالفت کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ کواڈ ممالک کورونا کی وبا کے خلاف جنگ میں اپنی ناکامی کو چھپانے کےلئے چین کی خلاف محاذ آرائی کو استعمال کر رہے ہیں۔ مذکورہ اجلاس زیادہ سکیورٹی کے لئے چین پر کم انحصار کے تصور کو تقویت دینے کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے جو درحقیقت عالمی ادارہ¿ صحت جیسے بین الاقوامی ادارے اس واقعے کو بالکل مخالف نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ غیر یقینی بات ہے کہ امریکہ کی قیادت میں سپلائی چین کو مستحکم کرنا کتنا مو¿ثر ہو گا۔ کامیابی کی کم اُمیدوں کے باوجود مذکورہ چاروں ممالک کی مجبوری ہے کہ وہ چین کے اثر و رسوخ کو کم کریں کیونکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کی معیشتیں چین سے بہت منسلک ہیں۔ چین 2013ءسے 2017ءتک بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا اور اب دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ آسٹریلیا کی کل برآمدات کا تقریبا نصف چین کو جاتا ہے جبکہ چین اور جاپان کے درمیان 2019ءمیں دوطرفہ تجارت 317ارب ڈالر تھی جو جاپان کی کل تجارت کا بیس فیصد ہے۔ امریکہ چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باوجود 2019ءمیں دو طرفہ تجارت 558 ارب ڈالر تھی‘ اور اس میں خدمات کا شعبہ شامل نہیں ہے۔ رواں سال جولائی تک چین اور امریکہ کے مابین دوطرفہ تجارت 290ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔ان حقائق سے یہ واضح ہے کہ ان ممالک کا چین سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا اور اس کے حصول میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اگر ہم سپلائی چین کی بھی بات کریں تو اس میں بہت ساری پریشانیاں آ سکتی ہیں۔ دوسری جانب بھارت نے چین کی بہت سی موبائل فون ایپس پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور مودی حکومت نے چینی درآمدات کو کم کرنے کے مقصد سے مئی میں خود کفالت اور خود انحصاری کی بات کی ہے۔ امریکہ نے تو 2018ءکے بعد ہی سے چین کے خلاف محصولات کی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی تھی۔ جاپان اپنی ان کمپنیوں کو واپس لانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جن کی پروڈکشن یونٹ چین میں ہیں اور آسٹریلیا نے بھی چین کی دھمکیوں میں آنا بند کر دیا ہے لیکن چین کے خلاف اٹھائے گئے یہ تمام تر اقدامات اب تک زیادہ کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں۔ محصول کی جنگ کے باوجود چین نے رواں سال جولائی تک امریکہ کو دوسوبیس ارب ڈالر مالیت کا سامان فروخت کیا ہے۔ اس عرصے میں امریکہ نے چین کو تقریبا ساٹھ ارب ڈالر کا سامان فروخت کیا ہے۔ جاپان کی مجبوری یہ ہے کہ چین اس کے لئے ایک بڑی منڈی ہے۔ بھارت میں بھی چین سے درآمدات میں زیادہ کمی نہیں آئی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ لداخ میں سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک اسی طرح واپس مل سکتے ہیں جیسے ڈوکلام میں تناو¿ کے بعد 2017ءمیں قریب آ گئے تھے اور تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے دنوں میں چین کے لئے بھارت نرمی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ (بشکریہ: سپوٹنک۔ تحریر: میخائل ورایکوف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)