زرعی ملک میں خوراک کی قلت

اس سے زیادہ بھلا عجیب بات کیا ہوگی کہ پاکستان جیسا زرعی ملک اب اتنا مجبور ہوگیا ہے کہ وہ اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اشیاءخوردنی باہر کے ممالک سے منگوا رہا ہے ‘ملک میں چینی کے حالیہ بحران کے بارے میں حکومت نے جو اعلیٰ سطحی انکوائری کروائی ہے اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کرنا ضروری ہے ‘اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوگر ملوں کی اجارہ داری توڑ کر انہیں جائز منافع کی طرف راغب کرنا اور کسان کو اس کی محنت کا معاوضہ دلانے اور غریب صارف کے مفاد کا تحفظ کرنے کے لئے حکومت کیا کرسکتی ہے اور کہاں تک جا سکتی ہے کچھ یہی حال گندم کا بھی ہے زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی طرف نہ موجودہ حکومت نے خاطر خواہ توجہ دی ہے اور نہ اس سے پیشتر برسراقتدار حکومتوں نے جن مسائل پر پارلیمنٹ میں سحر حاصل بحث ضروری ہے وہ یہ ہیں صرف گندم کی فی ایکڑ کاشت پر کسان کو 6 ماہ کی شبانہ روز محنت کے بعد مزدوری ٹریکٹر دو بوری ڈی پی اے ‘دو بوری یوریا سپرے آبیانہ پانی ٹیوب ویل کٹائی وغیرہ کے اخراجات نکال کر کاشتکار کو فی ایکڑ ڑ تین سے چار ہزار روپے کی بچت ہوتی ہے جو یقینا کسان کو بدل کر رہی ہے ‘حکومت نے گندم کی امدادی قیمت میں 250 روپے کا اضافہ کیا ہے لیکن اس سے سارے مسائل حل نہ ہوں گے ہم اس بات پر حیران ہیں کہ حکومت بھارتی پنجاب کی طرز پر گندم کے زمینداروں کو بجلی پانی اور کھاد سستی فراہم کرنے کا طریقہ کیوں نہیں اپناتی ‘ہر سال اس ملک سے ایک بڑی تعداد میں گندم کو افغانستان اور وسطی ایشیا ءسمگل کیا جاتا ہے کیا ہر سال ان ممالک کی حکومتوں اور درآمدکنندگان سے پیشگی رابطہ کر کے ان کی گندم کی ضروریات کے بارے میں ایڈوانس آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی اور پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ہماری برآمد کی سکت کتنی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فی ایکڑ پیداوار زیادہ کرنے کے لئے معیاری بیج کھاد سپرے اور پانی کے حصول کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے اور سٹوریج کے حجم میں اضافہ ‘ذخیرے اور سپلائی کی کڑی اور شفاف مانیٹرنگ کا نظام وضع کیا جائے ‘آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ایگریکلچر اینڈ فوڈ سیکورٹی کو ترجیح دینا نہایت ضروری ہے ‘فارم ٹو سٹور ٹو منڈی اور منڈی ٹو بازار تک سپلائی چین کی تمام تفصیلات کا ریکارڈ متعلقہ ویب سائٹ پر ہفتے یا مہینے کی بنیاد پر عوام کے معلومات کیلئے فراہم کرنا ضروری ہے جن غلطیوں کی وجہ سے 2020 ءمیں ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہوا اس قسم کا بحران آئندہ نہیں ہونا چاہئے ‘ارباب اقتدار اس بات کو نہ بھولیں کہ ملک میں آٹے اور چینی کا بحران دیگر تمام مسائل سے زیادہ حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس میں گورننس کے مسائل کرپشن خصوصا ًنا اہلیت اور سیاست کا بڑا عمل دخل شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں زراعت کے لئے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ہم اجناس درآمد کرنے کی بجائے برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو سکتے ہیں تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور اس سلسلے میں موثر اقدامات اٹھانے کے لئے مربوط پالیسیاں تشکیل دی جائیں اس طرف توجہ دینے کی موجودہ حالات میں اس لئے بھی اشد ضرورت ہے کہ زراعت ہی ہماری معیشت کو سہارا دے سکتی ہے۔