قومی سلامتی

پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے ساتھ کچھ اِس انداز سے مشت و گریباں ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ درحقیقت سیاستدانوں کو اِس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت میں جن انتہاو¿ں سے گزر رہے ہیں اُس کی وجہ سے ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہوگا‘ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیںہوگا کہ سیاسی عدم برداشت اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے پاکستان کی قومی سلامتی داو¿ پر لگ چکی ہے۔پاکستان کی سلامتی ‘بقا اور ترقی اِس بات میں مضمر ہے کہ ہر طبقہ دوسرے کے قریب رہے اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے کیونکہ نفرتیں پھیلانے والوں نے قوم کو بانٹ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت میں قومی ترقی کے بارے میں سوچ یا فکرمندی نہیںپائی جاتی۔ سیاست جو پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعہ ہو سکتی تھی لیکن یہ دوری کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کون سا محکمہ ہے جو کھوئے ہوئے قومی اتحاد و اتفاق اور تعلق کو پھر سے بحال کر سکتا ہے؟ معروف امریکی مفکر ڈاکٹر جارج فرائیڈمین (Dr. George Friedman) نے کہا تھا کہ ”پاکستان میں فوج ایک ایسی منظم قوت کا نام ہے جو پاکستان کو متحد کئے ہوئے ہے اور اِسی کی حب الوطنی کے باعث پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد پر جم کر کھڑا ہے۔“ اُن کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ جب تک پاک فوج منظم و متحد فورس کی صورت موجود ہے اُس وقت تک پاکستان پرآنچ نہیں آ سکتی اور یہ مشکل دور سے گزر سکتا ہے۔ ڈاکٹر فرائیڈمین نے جو تصور پیش کیا وہ عوام کے منتخب اداروں کی آزادی‘ غلامی‘ عام انتخابات یا کسی بھی ایسے عمل سے نہیں جو ’عوام کی حاکمیت سے ہے کیونکہ عوام کی اہمیت و حاکمیت بہرصورت رہتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے منظم ‘متحد اور مرکزی ادارہ کون سا ہے اور یہی ادارہ پاکستان کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے؟سیاسی قیادت کی بات کریں تو وہ تقسیم در تقسیم ہے۔ جمہوری اداروںکی بات کریں تو وہ بمشکل سانس لے پا رہے ہیں۔ جمہوریت ایک ایسے نظام کا نام ہوتی ہے جس میں شامل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ امن کا برتاو¿ کرتی ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں اُس حد تک نہیں جاتیںجہاں قومی سلامتی ہی خطرات سے دوچار ہو جائے۔ اِس منظرنامے میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت نہیں ہو رہی۔ سب اپنی اپنی جنگ میں اپنے آپ کو شکست دے رہے ہیں اور قابل افسوس ہے کہ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اُسے ہی کاٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ روپے کی قدر سے لیکر خارجہ پالیسی تک پاکستان کا مو¿قف کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ پاکستان کے دوست ممالک کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی ہونا کسی بھی طرح خوش آئندنہیں۔ جب کسی ملک میں سیاسی اختلافات بڑھ جائیں اور اِن اختلافات میں شدت آ جائے تو وہاں قومی مسائل کا حل ترجیح نہیں رہتا اور ملک معاشی مسائل و بے یقینی سے دوچار ہوتا چلا جاتا ہے‘سیاسی بے اتفاقیوں کی وجہ سے غربت ‘بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے موجودہ سیاسی عدم اِتفاق سے چار نتائج یعنی اَفراتفری‘ عدم اِستحکام‘ اَمن و امان کی صورتحال اور غیریقینی پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی نہیں جانتا کہ کل اُس کے ساتھ کیا پیش ہونے والا ہے اور یہی وہ مشکل ہے‘ جس کا حل تلاش کرنے کے لئے سیاسی جماعتوںکو ایک دوسرے کے بارے میںاپنی رائے اور عدم برداشت کی اصلاح کرنا پڑیگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)