اکتوبر کے مہینے میں آزاد جموں و کشمیر ہی نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کا یومِ تاسیس بھی منایا جاتا ہے اور اِن دونوں ہی کی عمریں ایک جتنی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کا 73واں جبکہ اقوامِ متحدہ کا 75واں یوم تاسیس منایا جا رہا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کم و بیش اقوامِ متحدہ کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے باعث جنم لے چکا تھا۔ پاکستان کے ہاں نہ صرف عالمی اِداروں کا احترام پایا جاتا ہے اور اس فیصلوں اور قرار دادوں پر عمل یقینی بنایا جاتا ہے بلکہ ان کی معاونت بھی کی جاتی ہے۔ مسلح افواج کی جانب سے اقوام متحدہ کے 75ویں یوم تاسیس پر نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میں لکھا گیا کہ پاکستان کے اب تک دو لاکھ افسر اور جوان اٹھائیس ممالک میں چھیالیس مشنز میں خدمات دے چکے ہیں۔ بین الاقوامی امن کے لئے پاکستان کے 158افسروں اور جوانوں نے جانیں قربان کیں۔ افواجِ پاکستان کی اقوامِ متحدہ کے ساتھ امن کے لئے خدمات کی نمایاں اور طویل تاریخ ہے۔ پاکستان نے تیس ستمبر 1947ءکو اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں شمولیت اختیار کی۔ اقوام متحدہ امن مشن میں شمولیت ایک نامور دور کا آغاز تھا جس کی تاریخ بے مثال ہے۔ پاکستان کا اقوامِ متحدہ کے امن مشن کا آغاز 1960ءمیں کانگو میں اپنا پہلا دستہ تعینات کرنے سے ہوا۔ رواں سال نائیک نعیم رضا شہید کو اقوام متحدہ کا خصوصی میڈل عطا کیا گیا ہے۔ پاکستانی خواتین بھی اقوامِ متحدہ امن مشن کانگو میں امن کےلئے سر گرم عمل ہیں‘ 83 پاکستانی خواتین امن مشن کا حصہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ سے قبل ’لیگ آف نیشنز‘ ہوا کرتی تھی جو ناکام تجربہ ثابت ہوئی جس سے کئی ممالک نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اقوام متحد کو اپنی بقا کا ادراک بھی ہونا چاہئے۔ اس کے ایجنڈے پر کب سے فلسطین اور کشمیر مسئلے ہیں۔ او آئی سی مسلم ممالک کی بڑی تنظیم ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد سب سے زیادہ کثیر الملکی آرگنائزیشن ہے۔ بوجوہ اس میں اتحاد کا فقدان ہے۔ او آئی سی مضبوط ہوتی باہمی اختلافات اس کی یکجہتی و یگانگت پر اثرانداز نہ ہوئے ہوتے تو اب تک فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا یا اقوامِ متحدہ کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہوتی۔ اقوامِ متحدہ نے عراق اورافغانستان پر امریکہ کو حملے کی اجازت دی۔ ان دونوں ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ لاکھوں افراد لاحاصل جنگ کا ایندھن بن گئے۔ دوسری طرف بھارت کی بربریت اور سفاکیت جاری ہے۔ جہاں بھارت کے مظالم سے لاکھوں کشمیریوں کا خونِ ناحق بہہ چکا ہے۔ چادر اور چاردیواری کا تصور مفقود ہے۔ تشددکے ذریعے کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر گڑھوں میں پھینک کر مٹی ڈال دی جاتی ہے بعید نہیں زندہ انسانوں کو بھی درگور کر دیا جاتا ہو۔ پانچ اگست 2019ءکو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سفاکیت کا طوفان بپا کیا گیا۔ پہلے روز سے لاگو کی گئی پابندیوں میں نرمی نہیں لائی جا رہی۔ وادی میں عقوبت خانے کم پڑ گئے تو بھارت میں عقوبت خانوں میں ہزاروں کشمیریوں کو منتقل کیا گیا۔ کشمیری کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لا رہے جن پر بھارتی فورسز سیدھی فائرنگ کرتی ہیں مگر ان کے جذبہ حریت کو دبانا ممکن نہیں۔ بھارت نے فوجیوں کی تعداد ساڑھے نو لاکھ تک بڑھا دی ہے۔ پابندیوں اور ظلم و جبر میں اضافے سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری کیا آخری کشمیری کے بھارتی سفاکیت کی نذر ہونے کی منتظر ہے؟ ایک طرف پاکستان ہے جو اقوامِ متحدہ کے ساتھ تعاون کے راستے پر چل رہا ہے اس کے باوجود اسے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی ’گرے لسٹ‘ میں رکھا گیا ہے اور بلیک لسٹ ہونے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اُڑاتے ہیں جن میں بھارت سرفہرست ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور بھارت کی رعونت کا اس امر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں وہ نہ صرف غیر جانبدار میڈیا‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور پارلیمنٹیرینز کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس نے اقوام متحدہ کے مبصرین کا بھی وادی میں داخلہ بند کر رکھا ہے۔ اور بھارت کے اس رویئے کو معلوم نہیں کیوں عالمی برادری برداشت کر رہی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے پاس تمام اقوام کی طرف سے دیاگیا مینڈیٹ ہے جس کا پاس رکھنا اس کے لئے ضروری ہے ورنہ اقوام عالم کا اقوام متحدہ سے اعتماد اٹھتا جائے گا اور وہ مسائل کے حل کے لئے گفت و شنید اور عالمی قراردادوں کی بجائے طاقت کا استعمال کرنے پر غور کریں گے جو کسی بھی صورت میں نہ عالمی ادارے کے حق میں ہے اور نہ ہی عالمی امن و خوشحالی کے حوالے سے یہ نیک شگون ہے‘کیا اقوامِ متحدہ بھارت سے خوفزدہ ہے؟ ایسا نہیں ہے تو پھر مقبوضہ کشمیر کے عوام پر مظالم کا سلسلہ بند کیوں نہیں کروایا جاتا؟ کشمیری عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس سوال کا جواب عالمی برادری کو دینا ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عظمیٰ الیاس۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)