حزب اختلاف کی جماعتوں نے گوجرانوالہ کراچی اور کوئٹہ میں اپنی طاقت اور جوش خطابت کا مظاہرہ کیا ہے جسے دیکھ کر اُن جمہوریت پسند عناصر کو یقینا اطمینان ہوا ہوگا جو پاکستان میں آزادی¿ اظہار کے لئے آواز اٹھاتے ہیں کہ کس طرح حکومت نے حزب اختلاف کے رہنماو¿ں کو سیکورٹی فراہم کی اور انہیں جمہوری اقدار کے مطابق اجتماعات کرنے کی اجازت دی جبکہ خدشہ یہ تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے تحریک کے قائدین کو گرفتار کر لیا جائے گا اور حکومت ’پی ڈی ایم‘ کو اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دے گی اِس سلسلے میں سلامتی کو لاحق خطرات کا بھی ذکر ہوا لیکن تمام تر خدشات اور جواز کے باوجود ’پی ڈی ایم‘ تین اجتماعات کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن پاکستان کی سیاست جمہوریت اور بالخصوص اقتصادیات کو لاحق بحران اور مسائل تقاریر سے حل نہیں ہوں گے بلکہ اِن کے لئے قومی سطح پر سیاسی ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے اور یہی وہ فقدان ہے جس کی شدت کے باعث نت نئے بحران جنم لے رہے ہیں۔پی ڈی ایم‘ کے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور اِس اتحاد کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیںاور وہ کئی قومی مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو اِس سے فرق پڑتا ہے اور اُن سبھی باتوں سے بھی فرق پڑتا ہے جو سیاسی قائدین اِنفرادی اور اجتماعی طور پر کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی تو کئی مرتبہ حکومت کر چکے ہیں اور اُن کے منہ سے لاپتہ افراد و دیگر مسائل کا سننا عجیب لگتا ہے کہ جب اِن کی اپنی حکومتیں قائم تھیں تو انہوں نے یہ مسائل حل کیوں نہیں کئے۔ آخر حزب اختلاف کی جماعتوں کو جہموریت اُس وقت کیوں یاد آتی ہے جب یہ خود حکومت سے باہر ہوتی ہیں؟ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے طرز حکمرانی کی وجہ سے پاکستان اقتصادی و معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن اِن کے چہروں پر شرمندگی یا خفت کے آثار نہیں ہیں۔کیا موجودہ حزب اختلاف کی جماعتیں یہ حقیقت بھول چکی ہیں کہ کبھی یہ بھی اقتدار میں تھیں اور اِن کا دور اقتدار موجودہ حکمراں جماعت سے زیادہ عرصے باقی رہا؟پی ڈی ایم کے بیانئے کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت بہت سے سوالات اُٹھا رہی ہے اور عوام کی عدالت میں ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی اور کارگزاری پیش کی جا رہی ہے لیکن اِس پوری صورتحال میں اُس سرخ لائن کو عبور کر لیا گیا ہے جس کا پاس رکھنا ضروری تھا اور جس کو عبور کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ حزب اختلاف پر غداری کا الزام عائد کر دیا گیا کہ جس کا دفاع کرنا بھی مشکل ہے اور صاف ظاہر ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف جس مقام تک پہنچ چکے ہیں اُس سے اِن کی واپسی آسان نہیں کیونکہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی سیاسی مو¿قف میں دلیل اور وزن کی اہمیت باقی رہی ہے۔وہ سبھی لوگ جو ’پی ڈی ایم‘ کے بیانئے سے متفق ہیں اور ایسا کرنے میں وہ بڑی حد تک حق بجانب بھی ہیں‘ اُن کےلئے یہ ایک جذباتی معاملہ بھی ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز ہے اور یہی وہ جنس ہے جو حزب اختلاف بیچ رہی ہے اور یہی وہ جنس ہے جسے عوام کی ایک تعداد خریدنا چاہتی ہے۔تاہم موجودہ حالات کے مناسبت سے طرز سیاست اور طرز حکمرانی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کو اپنے رویوں میں نرمی اور لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کو جومسائل درپیش ہیں ان کا مل جل کر مقابلہ ہو اور ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے پالیسی بنانے میں حکومت اور حزب اختلاف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو۔ دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں اتفاق رائے کی جس قدر ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو اس لئے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے سوچ اور رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔سیاست دانوں کو اپنے طرزحکمرانی کی اصلاح کرنی ہے اور سب سے بڑھ جمہوریت کے تقاضوں کو سمجھنا ہے کہ اگر یہ خود ایک دوسرے کو برداشت نہیں کریں گے تو اِنہیں کسی کا گلہ اور کسی کی شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کو ’سیاسی استحکام‘ کی ضرورت تھی۔ پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)