احتجاجی سیاست

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ڈی چوک کے دھرنے‘ مستقل میڈیا کوریج‘ احتجاج اور سڑکوں کی بندش کے دن دوبارہ آنے کو ہیں لیکن اس مرتبہ ان سرگرمیوں کا پس منظر تبدیل ہوگا۔جب سال دوہزار چودہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا دھرنا جاری تھا تو اس وقت خبردار کیا گیا تھا کہ حزب اختلاف جو کچھ بو رہی ہے کل اسے یہی کچھ کاٹنا بھی پڑسکتا ہے یعنی احتجاج کی روایت اچھی نہیں ۔اس دوران ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے دوران یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ اگر کسی منتخب حکومت کو غیر شفاف انتخابات کے الزام میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے گھر بھیج دیا جائے تو یہ ایک روایت بن جائے گی لیکن اس وقت ان آوازوں پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ کیا مریم نواز‘ بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نئے انتخابات کی قرارداد پاس کروائیں گے؟ جب تک ہر انتخابات کے بعد اختیارات کی ’حقیقی منتقلی‘ نہیں ہوتی‘ اُس وقت تک سویلین بالادستی کا خواب صرف ایک خواب ہی رہے گا۔احتجاج پر مبنی اِس سیاسی کھیل میں شامل تمام کرداریہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف مخصوص واقعات کو یاد رکھیں۔ مثال کے طور پر سیاسی جماعتیں چاہیں گی کہ عوام بھول جائیں کہ ایوان میں کس کے ووٹوں کے ذریعے سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کا تقرر ہوا‘ جو جماعتیں ایوان میں رائے دہی کے دوران اپنے اراکین کو قابو نہیں رکھ سکتیں انہی کی جانب سے اب یہ حکم جاری ہوا کہ جماعت کا کوئی رکن اعلیٰ قیادت کی اجازت کے بغیر کسی سے ملاقات نہیں کرے گا۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا ذہن اس حوالے سے واضح ہونا چاہئے کہ زندگی میں کچھ بھی مفت میں حاصل نہیں ہوتا۔ ماہرِ معاشیات تھامس سوول نے کہا تھا کہ ”یہاں کسی چیز کا حل نہیں‘ صرف سمجھوتے ہیں۔“ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ موجودہ حالات طویل سلسلے کی کڑی ہیں جس کے کرداروں میں مشرق وسطیٰ کی کمزور ہوتی ہوئی ریاستوں سے لے کر آزاد دنیا کے رہنماو¿ں کو تبدیل کرتی ہوئی نئی سپر پاور تک سب شامل ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی قیمت ویسے تو تمام جمہوریت پسندوں کو ادا کرنی پڑے گی لیکن سب سے بھاری قیمت لبرل اور ترقی پسندوں کو ادا کرنی ہوگی۔ پاکستان افغان امن عمل میں اپنے کلیدی کردار کا دعویٰ کرتا ہے جس وجہ سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ جب افغان طالبان کو حکومت میں شراکت داری کا موقع ملے گا تو پاکستان میں بھی اس کے اثرات نظر آسکتے ہیں۔ کچھ طبقات ایسے ضرور ہوں گے جو اس بات کا سہارا لینے کی خواہش کریں گے کہ بات چیت کے لئے طالبان کو تو انہوں نے راضی کیا تھا۔ حکومت کے چلے جانے پر جمعیت علمائے اسلام شریعت کے نفاذ سے لے کر مدرسوں کو کسی بھی قسم کی مالی اور تعلیمی پابندیوں سے آزاد رکھنے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاست میں دخل اندازی کرنے کی مخالفت کرتے ہیں ۔لیکن ان کی اپنی ماضی کی پالیسیاں اس امر کی گواہ ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا پھر مسلم لیگ ن دونوں نے سالہا سال حکومت کی ہے اور دونوں کو عوام نے کئی مرتبہ آزمایا ہے اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر عوام سے دوبارہ رجوع کرتے ہیں تو ماضی میں کی گئی غلطیوں کاضرور ازالہ کریں۔ ان کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے پاس موجودہ مشکل معاشی حالات سے نکلنے کا حل موجود ہے ۔ اس وقت اگر گرانی ہے اور مہنگائی ہے تو ان کویہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے دور میں یہ مسئلہ نہیں تھا۔ اب عوام کسی کے جھانسے میں آنے کو تیار نہیں اور وہ چاہتے ہیںکہ ان کے مسائل کا حل فوری طور نکالا جائے۔ موجودہ حکومت اگر اس مقام پر ہے تو ان کویہ موقع عوام نے ہی دیا ہے اور اس کی بڑی وجہ ماضی کی حکومتوں کی ناکام پالیسیاں تھیں۔ اب اگر حز ب اختلاف حکومت کی جگہ لینا چاہتی ہے تو ان کو اپنی مستقبل کی پالیسیوں سے عوام کوآگاہ کرنا ہوگا ان کو اپنا منشور دینا ہوگا کہ اگر ہمیںپھر موقع ملتا ہے تو ہم عوام کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلی لائیں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شہزاد شرجیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)