شاید ہی کوئی حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ انضمام کے واضح مطالبے کو نظر انداز کرسکتی ہے۔ گلگت بلتستان ایک ایسے خطے کی کیس سٹڈی ہے جس کے سیاسی حقوق کا کئی دہائیوں تک انکار کیا جاتا رہا ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیرِاعظم بنے تو انہوں نے گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ ایف آر سی‘ جاگیردارانہ نظام اور پولیٹیکل ایجنسی کے کردار کو ختم کردیا گیا۔گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کرنے کا سہرا بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو نے 1994ءمیں خطے میں جماعتی بنیاد پر انتخابات متعارف کروائے۔ 2009ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گلگت بلتستان کو خود مختار اور بااختیار بنانے سے متعلق ایک پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ اگرچہ یہ پیکیج امیدوں کے مطابق نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے خطے کو ایک شناخت ضرور حاصل ہوئی اور مقامی افراد میں اپنے سیاسی حقوق کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا۔یہاں یہ کہنا قابل ذکر ہوگا کہ یہاں پر اگر چہ اصلاحات کا عمل جاری ہے تاہم اس کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں پر حالات کی مناسبت اور حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات کا سلسلہ شروع ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے لوگ بہت باشعور اور حساس ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ محبت کے جذباتی رشتے میں پروئے ہوئے ہیں اسلئے جو بھی قدم اٹھایا جائے اس میں ان کے جذبات اور احساسات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ 2009ءکے بعد سے خطے کے نوجوان اور سول سوسائٹی‘ گلگت بلتستان کے سیاسی مسائل‘ آئینی حیثیت‘ مسئلہ کشمیر سے اس کے تعلق اور اس کے انضمام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ممکنہ قانونی راستوں کے بارے میں بحث اور مباحثے کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے گندم پر سبسڈی ختم کرنے یا ٹیکس کے نفاذ جیسے معاملے پر گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی تمام تر لسانی اور مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر سخت احتجاج کیا۔ 2015ءمیں گلگت بلتستان اسمبلی میں بہت محتاط الفاظ میں تیار کی گئی ایک قرارداد پیش ہوئی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کو اس وقت تک پاکستان میں ضم کرکے رکھے جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نہ نکل آئے۔ سیاسی بلوغت‘ آگاہی‘ تعلیم یافتہ طبقے کے آگے آنے اور متحد ہوکر آواز اٹھانے کی وجہ سے حکام مجبور ہوئے کہ وہ مسائل کے حل تلاش کریں۔2015ءمیں جب صوبے میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت بنی تو اس نے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قانونی ماہرین پر مشتمل کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو جانچے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے تجاویز پیش کرے۔ اس اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے‘ آرٹیکل 51 اور 59ویں میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے اور این ایف سی‘ این ای سی اور اسرا جیسے آئینی اداروں میں اس کی نمائندگی کی تجویز پیش کی۔ عوام کی جانب سے ان تجاویز کو سراہا گیا لیکن ان کو نافذ کرنے کے بجائے حکومت نے 2018ءمیں ایک دوسرا حکم نامہ جاری کردیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی اس مسئلے کو حل کی طرف لے جانا چاہ رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی عبوری صوبے کے مطالبے پر متحد ہے۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت بھی گلگت بلتستان کو پانچویں صوبے کے طور پر ضم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ عوام کی امیدیں بھی بلند ہیں۔۔ گزشتہ نسلوں کی جانب سے کی گئی کوششوں کی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں باقی ہیں اور وہ اب پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اپنے مطالبات کے لئے آواز اُٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے مطالبات کو مد نظررکھنا اور ان پرسنجیدگی سے غور کرنا بھی ضروری ہے۔ دیر آئد درست آئید کے مصداق اب اگر یہاں کے مسائل کی طرف توجہ دی جانے لگی ہے تو یہ ایک احسن اقدام ہے اور اس سمت میںسفر کوتیزی سے طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان حساس علاقوں کی اہمیت کے برابر ان کو ترقی اور خوشحالی کےک سفر میں برابر کا شریک کیا جائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سجاد احمد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)