امریکہ کے صدراتی انتخابات سے ’سیاسی و آئینی بحران‘ جنم لیتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ دونوں صدارتی اُمیدوار اپنی اپنی فتح کے لئے حد سے زیادہ یقین کا اظہار کر رہے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ چند امریکی ریاستوں میں لاکھوں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے جس کے مکمل ہونے سے قبل صدر ٹرمپ نے اپنی جیت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اہل خانہ اور لاکھوں حمایتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم جیت کے جشن کی تیاری کر رہے تھے‘ (کیونکہ) ہم ہر جگہ سے جیت رہے تھے۔“ انہوں نے فاتحانہ انداز میں امریکی ریاست فلوریڈا سے متوقع فتح کو ’بڑی کامیابی‘ قرار دیا کہ ’ہم صرف جیتے نہیں ہیں بلکہ ہم واضح اکثریت سے جیتے ہیں۔‘امریکیوں اور غیر امریکیوں کو شاید اِس بات کی توقع ہو گی کہ اب تک صدارتی انتخاب کے نتائج کے بارے میں کسی قسم کا کوئی حتمی اشارہ مل جائے گا یعنی انتخاب میں فتح کون سا امیدوار سمیٹنے جا رہا ہے لیکن فی الحال یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ اگلا امریکی صدر کون بننے جا رہا ہے کیونکہ ابھی تک بہت سے ووٹوں کی گنتی نہیں ہو پائی ہے جس سے اس بات کا واضح تعین ہو سکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن میں سے کون جیتے گا۔ درحقیقت کورونا وبائی مرض کے دوران ہونے والے صدراتی انتخاب کے دوران پوسٹل ووٹوں کی بڑی تعداد کو گننے کے لئے جتنا وقت درکار ہے‘ اس کی وجہ سے حتمی نتائج آنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں اور اگر نتائج کو کسی امیدوار کی جانب سے قانونی طور پر چیلنج کیا جاتا ہے تو اس صورت میں فیصلہ ہونے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔امریکہ کا صدراتی انتخاب پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ جہاں صدر بننے کے لئے کسی اُمیدوار کو اصل میں ”پاپولر ووٹ“ یعنی عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں یعنی یہ ممکن ہے کہ جو اُمیدوار عوام کے زیادہ تعداد ووٹ حاصل کرے لیکن وہ جیت نہ سکے۔ اس کی بجائے امریکہ میں الیکٹورل کالج کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ اِس نظام میں کسی امیدوار کو اکثریت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ الیکٹورل کالج کے نظام کے تحت ہر امریکی ریاست کو اپنی آبادی کے تناسب کے حساب سے تقریباً ایک خاص تعداد میں ووٹ یا ’الیکٹورل‘ حاصل ہوتے ہیں لہٰذا اگر کوئی اُمیدوار کسی ایک ریاست کو جیتے گا تو اُس کو وہاں کی آبادی کے تناسب سے طے شدہ مخصوص ووٹ حاصل ہو جائیں گے اور اُسے پوری ریاست کے اکثریتی ووٹ مل جائیں گے۔ امریکہ بھر میں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور جو صدارتی امیدوار ان میں سے 270ووٹ حاصل کرے گا وہ جیت جائے گا تاہم کچھ ریاستیں انتہائی اہم ہیں جن کے رائے دہندگان انتخاب کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سوئنگ سٹیٹس ہیں یعنی وہ ریاستیں جو کسی ایک مخصوص جماعت کا گڑھ نہیں ہوتی ہیں۔ ایسی ریاستوں سے جو بائیڈن اور ٹرمپ کے جیتنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جہاں سے اُنہیں آسانی سے کامیابی کی توقع تھی۔ کچھ اہم مسابقتی ریاستوں میں ابھی بھی بہت کانٹے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ان سخت مقابلے والی ریاستوں میں سے کچھ میں تو اب تک عہدیداروں نے پوسٹل ووٹوں کی گنتی بھی شروع نہیں کی اور یہ پوسٹل ووٹ سب کچھ بدل سکتے ہیں۔ فلوریڈا سے ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی‘ یہاں میامی ڈیڈ کاو¿نٹی میں انھیں کیوبن امریکی ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ ایریزونا ریاست نے 1996ءسے رپبلکنز کو ووٹ نہیں دیا لیکن اب یہ جو بائیڈن کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے وہاں رہنے والے نوجوان ترقی پسند لاطینیوں کے ساتھ انتخابی مہم میں خاصا وقت گزارا ہے۔ وسکونسن اور پنسلوینیا کی ریاستوں نے پوسٹل ووٹوں کی گنتی بھی شروع نہیں کی اور اس میں کچھ دن لگ سکتے ہیں تاہم ڈونلڈ ٹرمپ توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جو بائیڈن ان ریاستوں کو جیتنے میں ناکام ہو گئے ہیں جہاں تیزی سے ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل کیا گیا‘ جس کا مطلب ہے مزید غیر یقینی صورتحال کیونکہ ابھی کچھ اہم ریاستوں سے نتائج کا انتظار ہے۔ ٹرمپ کے اتحادی سینیٹر لنڈسے گراہم کو جنوبی کیرولائنا میں اپنے ڈیموکریٹک مقابل جیم ہیریسن کے مقابلے میں جیتنے کا امکان ہے‘ ایسا مقابلہ جس میں ایک موقع پر ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہار جائیں گے۔ ریپبلکن مارجوری ٹیلر گرین‘ جو QAON نامی سازشی تھیوری کی کھلے عام اتحادی ہیں‘ کانگریس میں ایک نشست جیت گئی ہیں، وہ بلا مقابلہ کھڑی تھیں۔ سینیٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی‘ ڈیموکریٹس نے اپنی سب سے کمزور نشست الاباما کو کھو دیا لیکن کولوراڈو رپبلکنز کے حصے میں آیا۔ ڈیلاور سے سارہ میک برائیڈ کے منتخب ہونے کے بعد امریکہ کے پاس ایک ایسی ٹرانس جینڈر منتخب عہدیدار ہیں جنہیں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ صدراتی انتخابات میں اگلا مرحلہ کیا ہو گا؟ اور یہ بات شاید کئی دنوں تک واضح نہیں ہو سکے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا صدراتی انتخاب پوسٹل ووٹوں کی گنتی میں تبدیل ہونے والا ہے‘ جن کی گنتی ابھی مشیگن‘ وسکونسن اور پنسلوانیا کی ریاستوں میں مکمل نہیں ہو سکی ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتہائی غیرمعمولی زیادہ تعداد میں پوسٹل ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں عدالت (امریکی سپریم کورٹ) کو ملوث کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کم ووٹوں سے ہارنے کی صورت میں وہ قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر حتمی فیصلے میں ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ کیا غیر یقینی صورتحال بدامنی کا باعث بنے گی؟ یقینی طور پر صدارتی انتخابات کے بعد امریکہ میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہونے والی ہے‘ اگرچہ بہت سارے امریکیوں نے اپنے خدشات کے بارے میں بات کی ہے لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا وہاں کوئی خاص بدامنی ہو گی یا نہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عصمت وکیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)