اگلے روز پاکستان کے معروف ہاکی کھلاڑی عبدالرشید جونیئر کا اسلام آباد میں گردے فیل ہونے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ان کا تعلق بنوں سے تھا وہ برگیڈیئرعبد الحمید حمیدی کے بھائی تھے ‘ یاد رہے کہ حمیدی اس پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے جس نے انیس سو ساٹھ میں پہلی مرتبہ روم اولمپکس گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا تھا عبدالرشید جونیئر نے ابتداءمیں جب ہاکی کھیلنا شروع کی تو وہ اپنے بڑے بھائی کی طرح رائٹ ان کی پوزیشن پر کھیلتے تھے پر بعد میں انہوں نے سینٹرفارورڈ کی پوزیشن پر کھیلنا شروع کیا اور ایک دور ایسا بھی تھا کہ ان کا شمار دنیا کے بہترین سینیٹر فارورڈ کھلاڑیوں میں ہوتا تھا ‘بنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہاکی کے کھلاڑیوں کی نرسری ثابت ہوا ہے ہاکی اور بنوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ایک لمبے عرصے تک بنوں میں ہر سال آ ل پاکستان عطا ءاللہ جان خان میموریل ہاکی ٹورنامنٹ باقاعدگی سے منعقد ہوتا تھا اس کے روح رواں ایک مقامی کھلاڑی تھے جو ظفری کے نام سے مشہور تھے اس ٹورنامنٹ میں ملک بھر کی چیدہ چیدہ ہاکی ٹیمیں حصہ لیتی تھیں اور اس کو جیتنا ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا اسی بنوں کی سرزمین نے قاضی محب جیسا دنیا کا بہترین ہاف بیک پلیئر پیدا کیا جس نے کئی بین الاقوامی ہاکی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہاکی کے حوالے سے بنوں کے بارے میں کچھ مزید ذکر ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا یہ 1848ءکی بات ہے جب ایک فرنگی بنجامن ایڈورڈز نے بنوں میں کنٹونمنٹ کی بنیاد رکھی ان دنوں اس علاقے کو دلیپ نگر کہا جاتا تھا اس کا موجودہ نام بنوں 1903 ءمیں رکھا گیا قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ برصغیر میں دھیان چند نامی ایک کھلاڑی پیدا ہوا ہے کہ جسے دنیا کا بہترین سینٹرفارورڈ قرار دیا گیا اس نے اپنی نوکری کے دوران چار سال بنوں میں گزارے تھے جہاں وہ مقامی ہاکی گراو¿نڈ میں کھیلا کرتا تھا بنوں کے لوگ جوق در جوق اس کا کھیل دیکھنے کے لئے ہاکی گراو¿نڈ جایا کرتے تھے ‘بنوں کے لوگوں میں ہاکی کے کھیل کا شوق پہلے ہی سے موجود تھا جسے دھیان چند کی موجودگی نے مزید تقویت پہنچائی ‘عبدالحمید عرف حمیدی پاکستان کی بری فوج میں بھرتی ہوئے تو وہاں وہ ہاکی کھیلا کرتے تھے اور ہاکی میں اپنے بے پناہ ٹیلنٹ کی وجہ سے وہ پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم میں منتخب ہوئے اور ایک دن اس کے کپتان بن گئے وہ رائٹ ان کی پوزیشن پر کھیلا کرتے تھے حمیدی نے چار ورلڈ اولمپکس میں شرکت کی وہ انیس سو اڑتالیس میں لندن میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کے ممبر تھے کہ جس نے دنیا میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی ورلڈ اولمپکس ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے چار سال بعد انیس سو باون میں جب ہیلسنکی کے مقام پر اگلا ورلڈ اولمپکس ہوا تو اس میں پھر وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے رکن تھے جس نے وہاں دنیا میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ جیتا چار سال بعد یعنی انیس سو چھپن میں آسٹریلیا میں جو ولمپکس ہوئے وہ اس میں بھی شریک ہونے والی پاکستانی کے ممبرتھے اس ٹیم نے دنیا میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور چاندی کا تمغہ جیتا تھا انیس سو ساٹھ میں روم کے مقام پر ورلڈ کپ ہوئے جس میں وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے اس ٹیم نے پہلی مرتبہ پاکستان کےلئے سونے کا تمغہ جیتا اور اس طرح ہاکی کی دنیا میں وہ امر ہو گئے‘بنوں نے حمیدی کے علاوہ دوسرے کئی اور ممتاز ہاکی کے کھلاڑی بھی پیدا کئے جیسا کہ ان کے بھائی عبدالرشید جونیئر قاضی محب ‘سعید خان اور فرحت خان ‘قاضی محب کو بھی دنیا کا بہترین ترین لیفٹ ہاف کھلاڑی سمجھا جاتا تھا ۔