یہ جو سیاستدان روزانہ اخبارات اور ٹیلیویژن کے ذریعے ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں انکے بارے میں اگلے روز ایک منچلے نے کیا خوب کہا کہ انسان ان میں سے کس کی بات پر یقین کرے کیونکہ ان سب کا یہ خیال ہے کہ اس ملک کے عوام بڑی آسانی سے بہکائے جا سکتے ہیں اور ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں کسی نے بھی سنجیدگی سے اس طرف توجہ دینے کی زحمت نہیں کی ہے۔اس وقت بھی حزب اختلاف اور حکومت کی چپقلش میں اصل نقصان عوام ہی کا ہورہا ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب ذرا ذکرہو جائے پاک افغان بارڈر پر دن بدن بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ، جہاں سرحد پار سے شرپسند عناصر حملے کرکے امن و امان کامسئلہ پیدا کررہے ہیں ۔دیکھا جائے تو کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور مغربی سرحدات پر امن کی حالت کو خراب کرنا ایک ہی کڑی ہے ۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں نے پاکستان کے خلاف ایک عرصہ دراز سے جو ماحول بنا رکھا ہے تو دشمنوں کا مقصد صاف واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ چاروں طرف سے پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے ‘ پاک افغان بارڈر پر سرحد پار سے ہوئے فائرنگ کے واقعات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں امن کوسبوتاژ کرنےوالوں کو پورا سپورٹ حاصل ہے اور پاکستان کی افغانستان میں امن کے قیام کی مخلصانہ کوششوں کو ناکام بنانے والے اب بھی افغانستان میں سرگرم ہیں، دوسری طرف یہ ابھی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کچھ لوگوں کو پاک افغان بارڈر پر پاکستان کی طرف سے باڑ لگانے کے عمل پر کتنی تکلیف ہے یہ باڑ پاکستان اس لیے لگا رہا ہے تاکہ تخریب کاری کےلئے افغانستان کی طرف سے آنے والے بھارتی دہشت گردوں کا رستہ موثر لحاظ سے روکا جائے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ وزیر دفاع ہر مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ پارلیمنٹ کو بتایا کریں کہ باڑ لگانے کا یہ عمل اب کس مرحلے میں ہے بارڈر لائن کی کل لمبائی کتنی ہے اور اب تک اس پر باڑ لگانے کا کتنے فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور مکمل طور پر باڑ لگانے کا عمل کب ختم ہوگا نیز پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر دفاع صاحب قوم کو یہ بھی بتائیں کہ پاک افغان بارڈر پر دونوں جانب یعنی خیبر پختونخوا کے ساتھ اور بلوچستان کے ساتھ منسلک پاک افغان بارڈر لائن کے ساتھ کتنے فوجی قلعے تعمیر کیے جا چکے ہیں اور کتنے باقی تعمیر کرنے ہیں قوم کو یہ بھی بتانا ضروری ہے ۔ اس ضمن میں حکومت پر امریکہ کی طرف سے خصوصا اور دوسرے مفاد پرست طبقوں کی طرف سے کافی پریشر آئے گا کہ وہ پاک افغان بارڈر کے رستے عوام کی نقل و حرکت پر اتنی زیادہ سختی نہ کریں پر اس معاملے میں حکومت کو کسی بھی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے کیوں کہ یہ اس ملک کی بقا کا مسئلہ ہے ہم اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ حکومت کے گوش گزار یہ بات دوبارہ کریں کہ خالی خولی پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے یا باڈر پر قلعے بنانے سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے داخلے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک اس کے ساتھ امیگریشن کے نظام کو منظم کر کے اسے فول پروف نہ بنایا جائے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مکمل طور پر پاکستانیوں اور افغانیوں کی پاکستان اور افغانستان میں آنے جانے پر پابندی ناممکن بھی ہے اور غیر انسانی بھی اس سے دونوں ممالک کی معیشت کو بھی نقصان کا خدشہ ہپ سکتا ہے ہزاروں لوگوں کا معاشی اور مالی مفاد پاک افغان تجارت کے ساتھ وابستہ ہے افغانی اور پاکستانی مسلمان آپس میں شادی بیاہ کے رشتے میں جڑے ہوئے بھی ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانیوں کے پاکستان آنے جانے کے سسٹم کو صحیح خطوط پر استوار کیا جائے اور ایسے قوانین اور ضابطے وضع کیے جائیں تاکہ کوئی بھی بھارتی ایجنٹ کسی قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر کسی حیلے اور بہانے سے پاکستان کے اندر داخل نہ ہو سکے اور یہاں آ کر وہ دہشت گردی کی کسی کاروائی میں ملوث نہ ہو یہ کوئی مشکل کام نہیں اور نہ ہی ناممکن ہے وزارت داخلہ کو اس معاملے میں باریک بینی سے تمام پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد ایک ایسی امیگریشن پالیسی بنانی چاہیے کہ کوئی بھی افغانی بغیر ویزے کے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہو اور پھر حکومت کو پتا ہو کہ جس تاریخ کو اس نے واپس اپنے وطن جانا تھا وہ اس تاریخ پر اپنے وطن واپس چلا گیا ہے اور یہاں اپنے کسی عزیز کے پاس چھپا ہوا نہیں نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ نے جس طرح دہشت گردی کو روکنے کے لئے ہوم لینڈ سکیورٹی کا نظام اپنے ہاں نافذ کیا ہے ہمیں بھی کم و بیش اسی طرح کا کوئی سسٹم اس ملک میں نافذ کرنا ہوگا اس معاملے میں ذرا سی بھی نرمی اور سیاسی مصلحت اس ملک کی بقا کو داو¿ پر لگا سکتی ہے۔ اس تمام تناظر میںدیکھا جائے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر اب بھی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے، جہاں تجارتی راستے کھولنے اور ویزہ کی سہولیات میں آسانی فراہم کی گئی ہے وہاں امیگریشن کے معاملات کو زیادہ صاف و شفاف بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان نرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی ایجنسیاں افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کار داخل کرنے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو۔ بڑی کوششوں اور قربانیوں سے جو امن کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور ملک کے طول و عرض میں معاشی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں تو یہ عمل پاکستان کے دشمنوں سے کب برداشت ہوسکتا ہے اس لئے ان کی کوشش ہے کہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ مغربی سرحد پر اندرون ملک امن و امان کی صورتحال خراب ہو تاکہ پاکستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں خاص کر سی پیک پر تیز ی سے جاری عملد درآمد میں رکاوٹ کھڑی کی جائے ۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنا اشد ضروری ہے اور سیاسی قائدین کواس حوالے سے بالغ نظر ی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔