نیرنگی سیاست اور کورونا کی دوسری لہر

نواز لیگ بلوچستان کے صوبائی صدر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کی اپنی پارٹی سے علیحدگی شاید اس پارٹی میں کوئی بھونچال تو نہ لا سکے پر اس سے بلوچستان کے اندر اس پارٹی کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے‘ بلو چستان میں پہلے ہی سے نواز لیگ کی پوزیشن کوئی قابل رشک نہ تھی اب عبدالقادر بلوچ اور ان کے ہم خیال افراد کے نواز لیگ کو خیرآباد کہنے سے اس پارٹی کی بلوچستان میں چولہیں کافی حد تک ہل گئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عبدالقادر بلوچ صاحب اور ان کے ہمنوا کس سیاسی پارٹی کو جوائن کرتے ہیں پی پی پی اور پی ٹی آئی دونوں کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل ان کے ساتھ وابستہ کر دیں‘ عبدالقادر بلوچ کے ساتھ ساتھ ثنااللہ زہری نے بھی نواز لیگ کو داغ مفارقت دے دیا ہے ان دونوں رہنماو¿ں نے گزشتہ ہفتے کے روز کوئٹہ میں ایک تقریب میں جو باتیں کیں ان سے میاں نواز شریف کا پبلک امیج کافی حد تک خراب ہواہے مندرجہ بالا دو اصحاب نواز لیگ کے اہم رہنما مانے جاتے تھے ان دونوں حضرات نے جو باتیں کی ہیں ان سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نواز لیگ کی ہائی کمان سے اتنے دل برداشتہ ہیں کہ انہوں نے اپنی کشتیاں جلا ڈالی ہیں اور شاید اب نواز لیگ میں ان کی واپسی کا امکان ناممکن ہو گا ادھر نظر یہ آرہا ہے کہ نواز لیگ اور پی پی پی کے درمیان جو ازلی رقابت کا جذبہ موجود ہے وہ دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں کہیں نہ کہیں آشکارا ہو جاتا ہے گو کہ ان پارٹیوں کے لیڈر اس بات کو ماننے پر تیار نہیں کہ ان میں کوئی سیاسی اختلافات موجود ہیں پر قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ بعض امور پر ان میں ایسے اختلافات موجود ہیں کہ جو کسی بھی وقت ان کی جدائی کا سبب بن سکتے ہیں۔کسی منچلے نے کیا معنی خیز بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ملک میں کورونا وائرس کی وبا دوبارہ پھیلانے میں برابر کے ذمہ دارہیں ‘ایک طرف تو وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کےلئے تمام ضروری حفاظتی اقدامات پر عمل کریں اور دوسری طرف وہ خود سماجی فاصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتے آپ نے یقینا ٹیلی ویژن سکرین پر حکومتی پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں دونوں کے بڑے بڑے جلسے دیکھے ہوں گے کہ جن میں ہزاروں افراد کا جمگٹھا ہوتا ہے اگر آپ باریک بینی سے جلسے میں موجود حاضرین کو دیکھیں تو آپ کو شاذ ہی کوئی ایسا شخص نظر آئے کہ جس نے ماسک پہنا ہو یا جلسے میں موجود دوسرے افراد سے سماجی فاصلہ رکھا ہو اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہر کو پھیلانے میں ان سیاستدانوں کا بھی ہاتھ ہے کہ جو اس قسم کے جلسے منعقد کر رہے ہیں اور ان افراد کا بھی کہ جو ان جلسوں میں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں تو یہ بات غلط نہ ہوگی حیرت کی بات یہ ہے کہ جب حکومت اس وبا سے ان کی جان بچانے کے لئے بازاروں میں مارکیٹ اور دکانیں بند کرتی ہے تو پھر یہی لوگ شور مچاتے ہیں کہ حکومت کے جبر کی وجہ سے ان کا کاروبار ختم ہوگیا ہے بہتر ہوگا کہ اگر حکومتی پارٹی اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں آئندہ چند مہینوں کےلئے اپنی سیاسی سر گرمیوں کو صرف ٹیلی ویژن چینلز کی سکرینوں تک محدود رکھیں اور جو کچھ بھی انہوں نے عوام سے کہنا ہے وہ ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے کہیں ‘ کورونا وائرس کی اس تازہ ترین لہر کے بارے میں میں ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہے کہ یہ پہلی لہر کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے کیونکہ کوونا وائرس اس شدت کے ساتھ اپنے شکار پر حملہ آور ہو رہا ہے کہ وہ اسے جینے کا ایک ہفتے کا موقع بھی نہیں دیتا اس خطرے کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن اور تمام عوام کو حد درجہ کے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس وبا سے کم سے کم نقصان ہو ۔