ہمارے بعض سیاسی رہنما نہ جانے صرف ایسٹبلشمنٹ ہی کو اس ملک کی تمام خرابیوں اور کمیوں کی جڑ کیوں قرار دے رہے ہیں اور تمام ملبہ اس پر کس لئے ڈال رہے ہیں ؟کیا وہ خود پاک صاف دودھ سے دھلی ہوئی کوئی مخلوق ہے ؟ ہمارامقصد کسی کی طرف داری کرنا نہیں ہے پر اگلے روز ایک صاحب کو ٹیلی وژن چینل پر یہ کہتے ہوئے سن کرہمیں حیرت ہوئی جب انہوں نے یہ فرمایا کہ اس ملک پر ایسٹیبلشمنٹ نے 35 برس حکومت کی ہے ان کا اشارہ غالبا ان ادوار کی طرف تھا کہ جن میں ایوب خان یحییٰ خان ضیاالحق اور پرویز مشرف اس ملک کے صدور رہے تھے موصوف نہ جانے کیوں یہ بات فراموش کر گئے کہ تقریبا اتنی ہی مدت وہ لوگ بھی توایوان اقتدار میں بر سر اقتدار رہے ہیں کہ جنہوں نے کچھ عرصے سے اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف موڑ رکھاہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر وہ طبقہ کہ جو اس ملک میں برسراقتدار رہا بھلے اس کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے تھا یا کسی اور گروہ سے وہ اس ملک کی موجودہ خستہ حالی کےلئے برابر کا ذمہ دار ہے اسٹیبلشمنٹ ایک وسیع لفظ ہے جس میں بیوروکریسی بھی شامل ہوتی ہے ‘ لغزشیں سب سے ہوئی ہیں کسی سے کم تو کسی سے زیادہ اگر ہم سب اپنی حدود و قیود کے اندر رہ کے آئین کے تقاضوں کے مطابق کام کریں تو آج یہ نوبت نہ آتی کہ جو اس وقت ملک کو درپیش ہے کیا آپ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ چھوٹی چھوٹی باتوں کےلئے امن و امان کے حوالے سے سیکورٹی اداروں کو طلب کر لیتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس ملک میں پولیس کے انفراسٹرکچر کو جدید ترین21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھالا اس کے نچلے کیڈرز میں جو بھرتی کی جاتی رہی ہے وہ ایک عرصہ دراز سے سیاسی سفارشوں پر کی جا رہی ہے کسی کی سفارش کوئی ایم پی اے کر رہا ہے تو کوئی ایم این اے یا سینٹر کی سفارشی چٹ سے پولیس میں بھرتی ہو رہا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس طریقے سے جو پولیس فورس بنائی گئی وہ جرائم کی بیخ کنی کرنے میں ناکام رہی ہے اور معمولی امن عامہ کی صورت حال میں بھی سول انتظامیہ کے پاس بجز اس کے کوئی دوسرا آپشن نہیں رہتا کہ وہ فوج کو طلب کرے اگر ملک میں پولیس فورس میں بھرتی کا نظام میرٹ پر ہوتا تو سول محکموں میں فوج کی مداخلت کم سے کم ہوتی یا بالکل نہ ہوتی سول انتظامیہ کو بہ امر مجبوری ان کاموں میں بھی افواج کو ملوث کرنا پڑتا ہے کہ جو فوج کے بنیادی کاموں میں شامل نہیں۔ ہمیں یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ اس ملک کے ریاستی اداروں میں میرٹ پر بھرتی کا نظام صرف افواج پاکستان میں ہی نافذ ہے اور اس پر ہمیشہ سے سختی سے عمل درآمد ہوتا آ رہا دوسرے محکموں میں تو اتنی سیاسی مداخلت ہو چکی ہے کہ وہاں تو سرے سے میرٹ کا وجود ہی نظر نہیں آتا اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو آپ کو افواج پاکستان کی کارکردگی اور سول اداروں کے درمیان نظر آئے گا فرق صاف ظاہر ہے۔پاکستان کی عدلیہ میں بھرتی دو طریقوں سے کی جاتی ہے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سول جج پبلک سروس کمیشن کے تحریری اور زبانی امتحانات کے ذریعے چنے جاتے ہیں ان کو ان کی سینارٹی اور اعلی کارکردگی کی بنیاد پر پروموٹ کیا جاتا ہے اور انجام کار جب وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بن جاتے ہیں تو ان میں سے پھر ہائی کورٹ کے لیے جج چنے جاتے ہیں جس کےلئے ایک مخصوص کوٹہ مقررہے اس طریقہ کار پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہائی کورٹ کے ججوں کے لئے وکلا برادری سے بھی براہ راست انتخاب ہوتا ہے اور یہ وہ طریقہ ہے کہ جس پر کئی مبصرین انگلی اٹھاتے ہیں ان کا اعتراض یہ ہے کہ دس میں سے نو کیسز میں حکومت وقت اپنے منظور نظر افرادکو اس منصب کےلئے منتخب کرتی ہے لہٰذا اس نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس شخص کو بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا جج بنایا جائے وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو یہ کام مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں ۔