مستقبل قریب میں جو کوئی بھی اس ملک میں ایوان اقتدار میںہوگا اس کا بطور لیڈر سخت امتحان ہو گا اسے بیرونی اور اندرونی دونوں طرف سے سنگین خطرات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا پہلے بیرونی خطرات کا تذکرہ کر لیتے ہیں اگر امریکہ افغانستان سے اپنی افواج نکال لیتا ہے تو خانہ جنگی یقینا اس ملک کا مستقبل ہو گی طالبان اور افغان حکومت میں گھمسان کا رن پڑ سکتا ہے وہ پھر ایسا وقت ہو گا کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہے اگر تو ہم نے اولذکر کی حمایت کا اعلان کردیا تو ظاہر ہے ہم مغربی ممالک کی ہمدردیاں کھو دیں گے اور اگرہم نے ثانی الذکر کے موقف کی تائید کی تو دوسرا فریق ہمارے بیری ہو جائے گا۔ ایسے میں پاکستان کسی ایک طرف بھی ہونے کا متحمل نہی ہوسکتا اور نہ دیگر دنیا سے کٹ کر رہنے کی پوزیشن میں ہے افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے پیش نظر ہمیں کونسا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے اس کےلئے قومی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں کو ابھی سے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ کر کسی رستے کا انتخاب ابھی سے کر لینا چاہئے۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ ہم کو ایک مرتبہ پھر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس قسم کے حالات سے ہم کو نائن الیون میں پالا پڑا تھا اندرونی محاذ پر اپوزیشن حکومت کے خلاف سیاسی تندور گرم رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے وطن عزیز کی پہلے سے ہی ڈوبی معیشت مزید ڈوبتی جائے گی اور جب ملک کی معیشت دگرگوں ہو گی تو ملک میں مہنگائی بڑھے گی اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جائے گی جس اس کے دل میں حکومت وقت کے خلاف نفرت بڑھے گی اور یہی اپوزیشن کی دلی خواھش بھی ہے ادھر مودی چھریاں تیز کر کے تیار بیٹھا ہواہے کہ اسے کوئی موقعہ ملے اور وہ اس ملک پر کوئی بھرپور وار کرے وہ مناسب موقع کی تاک میں ہے جس قسم کے سیاسی حالات سے ہم نبرد آزماہیں ان میں سیاسی قیادت کو وسیع تر قومی مفاد میں ماضی کی تلخیاں بھلا کر کشادہ دلی کا مظاہرہ کرناہوتا ہے جو تادم تحریرہمیں عنقا نظر آ رہی ہے خدانخواستہ اگر یہ ملک ہی نہ رہا تو یہ سیاسی لوگ پھر کس پر سیاست کریں گے ۔ افغانستان میں جب تک امن نہ ہو گا وطن عزیز کا امن بھی تاراج رے گا ۔اب یہ افغان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو اغیار کو استعمال کرنے نہ دیں بھارت نے دل کھول کر ماضی میں افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال کیا ہے اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے اور اسی طرح ہمارے حکمرانوں نے بھی کافی غلطیاں کی ہیں جن کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں ۔افغانستان بیسویں صدی میں شروع سے لے کر آخر تک امن عامہ کے لحاظ سے ڈسٹرب رہا اور مختلف ممالک نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا توقع تھی کہ شاید اکیسویں صدی اس کےلئے امن کا پیغام لائے اور اس کے حکمراں ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں نہ دہرائیں پر اکیسویں صدی کے بھی بیس سال پورے ہونے لگے ہیں ابھی تک ہمیں تو آج کے افغانستان اور بیسویں صدی کے افغانستان کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا جس طرح ماضی میں افغانستان کے حالات تھے وہ کم و بیش اسی طرح آج بھی ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کا جغرافیائی محل وقوع کچھ اس نوعیت کا ہے کہ اگر افغانستان کو زکام لگے تو پاکستان کو کھانسی لگ جاتی ہے اور اگر پاکستان کو زکام لگے تو لامحالہ افغانستان کو بھی چھینک آنا شروع ہو جاتی ہے اس لیے جب تک ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہ ہوں گے اس خطے کا امن ہمیشہ ڈسٹرب رہے گا اس ضمن میں افغانستان میں متحارب سیاسی قوتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا اور اپنے ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنے باہمی اختلافات کو دفن کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہوگا ۔