گڈ گورننس کے تقاضے

 گزشتہ دو برسوں میں بیوروکریسی اور پولیس کی اعلیٰ انتظامیہ میں ملک بھر میں اتنے تواتر سے اتنے زیادہ تبادلے کیے گئے ہیں کہ جن کی مثال ہماری تاریخ میں بہت کم ہی ملتی ہے‘ شاید ان تبادلوں کا مقصد ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے‘ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ اس روش سے ملک میں گڈ گورننس کا حصول کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ جن افسران کو چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کرنا چاہیں انہیں بلا کر بغیر کسی لگی لپٹی کے غیر مبہم الفاظ میں یہ ہدایات جاری کردیں کہ جو علاقے قانونی طور پر ان کے دائرہ اختیار میںہیں ان میں امن عامہ کا قیام ان کی ذاتی ذمہ واری ہے اور اگر وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب پائے گئے تو وہ اس کےلئے براہ راست ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے اس کے بعد ضلعی اور ڈویژنل سطح پر سول ایڈمنسٹریشن اور پولیس میں جو بھی تعیناتی کرنی ہو اس کا کلی اختیار چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے پاس ہونا چاہئے صوبے کے ان دو بڑے انتظامی افسروں کو یہ بھی صاف بتا دینا چاہئے کہ انتظامی کاموں میں یا پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسروں کے تبادلوں کے سلسلے میں وہ کسی بھی سیاسی شخص کی سفارش نہ مانیں بھلے اس کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہو یا اپوزیشن سے اس طرح حکمرانوں کو اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی پر بھی یہ بات واضح کر دینا چاہئے کہ ضلع اور کچہری کے معاملات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی وہ وہاں جاکر کر کسی شخص کی سفارش کر سکتے ہیں ان کا کام صرف اور صرف صرف قانون سازی ہے یقین مانئے کہ اگر اس قسم کے احکامات جاری کر دیئے جائیں تو ملک کے اندر امن امان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہو سکتی ہے ‘ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘ اس ملک کی انتظامیہ اور پولیس یک دم زبوں حال نہیں ہوئی اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے ایک لمبے عرصے تک سول انتظامیہ میں بھرتی کے دو راستے ہوا کرتے تھے ایک راستہ تو یہ تھا کہ مرکزی سطح پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سطح پر صوبائی پبلک سروس کمیشن تحریری اور زبانی مقابلوں کا انعقاد کرتے تھے اور میرٹ پر سول سروس کےلئے افراد چنے جاتے تھے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان سے بھرتی ہونے والے افراد کو اسسٹنٹ کمشنر کہا جاتا جبکہ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے ذریعے سے منتخب ہونے والے افراد کو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کہا جاتا اس کے علاوہ صوبوں میں جو ریونیو تحصیلدار بھرتی کیے جاتے ان میں سے بھی سنیارٹی کی بنیاد پر ایک مخصوص کوٹے کے اندر تحصیلداروں کو بھی ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی آسامی پر پروموٹ کیا جاتا ۔ جب تک یہ نظام چلتا رہا اس ملک کی سول انتظامیہ میں میرٹ پر بھرتی ہوتی رہی اور جو افراد بھی اس طریقہ کار سے سول سروس میں آتے رہے ان کی کارکردگی کافی تسلی بخش تھی اس کے بعد یہ سیدھا سادہ بھرتی کا نظام اس وقت تلپٹ ہو گیا جب ان کے علاوہ بھی حکومت میں بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر شروع کردی گئیں، اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کے دو رکا تذکرہ نہیں بلکہ ہر کسی نے برابر اس میں حصہ ڈالا۔ یہی حال پولیس کا بھی ہوا اور بھرتیوں میں سیاسی مداخلت دیگر سرکاری اداروں میں بھی ہونے لگی ۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب انتظامیہ اور پولیس افسروں نے یہ محسوس کر لیا کہ اگر انہوں نے حکمران پارٹی کے کسی فرد کی یا کسی اہم سیاسی لیڈر کی کوئی جائز و ناجائز بات نہ مانی تو عین ممکن ہے کہ ان کا تبادلہ کر دیا جائے تو وہ پھر ہر جائز ناجائز بات ماننے لگے اور اس طرح ملک میں نا انصافی کا چلن عام ہو گیا کیا یہ حقیقت نہیں کہ ماضی میں جو بھی اس ملک کا حکمران رہا اس نے الیکشن کے دوران انتظامیہ اور پولیس کو مجبور کیا کہ وہ ہر ناجائز اور غیر قانونی طریقہ بروے کار لاکر انہیں الیکشن میں خامخواہ کامیاب کرائیں بہت کم ایسے افسر تھے جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے کہ جنہوں نے الیکشن میں حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا ‘ یاد رہے کہ بھٹو کے دور حکومت میں انتظامی اصلاحات کے نام سے ایسے قوانین پاس کئے گئے کہ جن کے تحت سرکاری ملازموں کے سر پر سے وہ چھتری ہٹا لی گئی گی جوان کو اپنی نوکری کے بارے میں آئینی تحفظ فراہم کرتی تھی تاکہ وہ ان سے جو کام بھی کرانا چاہیں باآسانی کرا سکےں۔ ایسے میں جب موجودہ وفاقی حکومت ہر سطح پر اصلاحات کا سلسلے جاری رکھے ہوئی ہے تو گڈ گورننس کے حوالے سے بھی دور رس اقدمات اٹھائے تاکہ بہت سی خرابیوں کی جڑ اس خرابی کودور کیا جاسکے۔