ضلعی عدالتیں جنہیں لوئر کورٹس بھی کہا جاتا ہے وہاں پر پریذائیڈنگ آفیسرز اور وکلاءکے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے مقدمات کا تیزی کے ساتھ نمٹانے میں اہم کردار ہوتا ہے اور یہاں پر جس قدر پر سکون ماحول ہو اتنا ہی یہاں پرکام تیزی سے اور موثر انداز میں انجام پاتا ہے تاہم بدقسمتی سے تجربہ بتاتا ہے کہ ان دنوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان فریقین کے درمیان تعلقات کار اس قدر خوشگوار نہیں رہے۔ ماضی بعید میں بھی کبھی کبھار کسی پریذائیڈنگ آفیسر اور کسی وکیل کے درمیان عدالت کے احاطے میں تلخ کلامی ہو جایا کرتی تھی پر وہ آٹے میں نمک کے برابر تھی اور عدالتوں میں موجود سینئر وکلاءفوراً سے پیشتر مداخلت کرکے معاملے کو رفع دفع کر دیتے تھے اور بات وہیں ختم ہو جاتی تھی ‘ عدالتوں کا نظام قانونی دلائل سے چلتا ہے نہ کہ دھونس دباو¿ یا غیر ضروری تکرار سے‘ اس ضمن میں حالات کو سنوارنے کے لئے وکلاءکی مختلف بار کونسلیں اور ہائی کورٹس اپنا اہم اور بنیادی کردار موثر طور پر ادا کر سکتے ہیں ‘عدلیہ کا پیشہ اپنانے والے نئے جواں سال سول ججوں اور وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والے جوانسال وکلا ءکو مختلف بار کونسلز اور ہائی کورٹس خصوصاً ریفریشر کورسز کے ذریعے عدالتی کاروائی احسن طریقے سے سر انجام دینے کے طریقہ کار سے روشناس کرا سکتے ہیں‘ وکالت کرنے کا لائسنس صرف اسی صورت میں وکلاءکو دیا جائے کہ انہوں نے اس ضمن میں ریفریشر کورسز میں شرکت کے بعد ان کی بنیاد پر ایک امتحان پاس کیا ہو ۔ایک اچھے اور کامیاب وکیل کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت کے اندر مقدمے پر بحث کے دوران نہایت ہی شستہ زبان میں غیر جذباتی طور پر دلائل عدالت کے سامنے پیش کرتا ہے اور ایسے جملے استعمال کرنے سے اجتناب کرتا ہے کہ جس سے پریذائیڈنگ آفیسر کے نالاں ہو جانے کا خدشہ ہو اور اس کا پارہ چڑھ جائے اب چونکہ عدالتی موضوع پر بحث چل نکلی ہے تو بے جا نہ ہوگاکہ اس ضمن بعض دوسرے اہم معاملات کا بھی ایک ہلکا سا ذکر ہو جائے کہ جن سے ان لوگوں کو سخت تکالیف کا سامنا ہے جو کسی نہ کسی فوجداری یا دیوانی مقدمے میں پھنسے ہوئے ہیں ‘ دیوانی مقدمات کے بارے میں تو مثل مشہور ہے کہ دیوانی مقدمہ انسان کو دیوانہ کر دیتا ہے‘ عدالتوں کے چکر لگا لگا کر اس کی چپلی گھس جاتی ہے پر اس کا مقدمہ ختم نہیں ہوتا‘ اس صورت حال کے لئے کسی ایک طبقے کو مورد الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا اس میں انیس سو اڑتالیس سے لےکر اب تک اقتدار میں آنے والی تمام حکومتیں برابر کی ذمہ دارہیں کہ جنہوں نے اس شعبے میں جہاں جہاں اصلاحات کرنے کی ضرورت تھی نہیں کیں انصاف کی فراہمی میں دیری معاشروں اور ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے ‘ دوسری جنگ عظیم میں دو تین برس تک جرمنی کے طیارے لندن پر نان سٹاپ بمباری کرتے رہے جس سے وہاں ریاست کے کئی ادارے تقریبا ً مفلوج ہو کر رہ گئے‘ ایک دن اس وقت کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے پوچھا عدالتوں کا کیا حال ہے کیا وہ کام کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف مل رہا ہے تو اس کے جواب میں ان کے ہوم سیکرٹری نے کہا کہ جی ہاں عدالتیں بالکل ٹھیک ٹھاک کام کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم ہو رہا ہے ‘اس پر برطانوی وزیراعظم نے یہ جملہ کہا ”ہاں ‘ اگر کام کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف مہیا ہو رہا ہے تو اس صورت میں پھر جرمنی برطانیہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔