گلگت اور بلتستان کے حالیہ الیکشن کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام ابھی مکمل طور پر پی ٹی آئی سے مایوس نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے بیانیہ کو بھی مسترد کر دیا ہے ملک کے دوسرے علاقوں کے ووٹرز کو بھی گلگت اور بلتستان کے عوام نے الیکشن میں ڈسپلن کا مظاہرہ کر کے یہ سبق سکھایا ہے کہ الیکشن بغیر کسی شوروغوغا کے بڑے پر سکون انداز اور طریقے سے بھی منعقد کیا جا سکتا ہے جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے ایک نہایت ہی اچھی روایت قائم کر دی ہے انہوں نے پولنگ سٹیشنوں پر اس بھگدڑ کا مظاہرہ نہیں کیا جوہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے اور جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثر سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کی مناسب تربیت نہیں کرتیں اور ان کو یہ نہیں سکھلاتیں کہ الیکشن کے قواعد و ضوابط کا احترام کرنا کتنا ضروری ہوتا ہے ‘اس الیکشن میں کوشش از بسیار بعض پارٹیوں نے سیاسی طور پر بہت کچھ کھویا ہے اور اس کی بڑی وجہ ماضی میں ایوان اقتدار میں ان کی سیاسی پارٹیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی ہے ‘اسی طرح جس سیاسی پارٹی نے یہ معرکہ مارا ہے اسے بھی بغلیں بجانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اسے یہ الیکشن ہارنے والی اور عوام کی نظر میں گرنے والی سیاسی جماعتوں کے انجام سے سبق لینا چاہئے کہ اگر اس نے بھی ڈلیور نہ کیا اور گلگت اور بلتستان کے عوام کے ساتھ اس الیکشن مہم کے دوران کئے گئے وعدے وعید پورے نہ کئے تو کل کلاں اس کا انجام ان پارٹیوں سے بدتر ہو سکتا ہے کہ جو آج ہاری ہیں ۔کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کے بجائے بہتر ہو گا اگر وہ پارٹیاں جو یہ الیکشن ہاری ہیں وہ دیکھیں کہ آخر ان سے لغزش کہاں کہاں ہوئی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ عرش سے فرش پر آ ن گری ہیں ‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ”میں نہ مانوں “کی رٹ لگانے کے بجائے یہ بہترہو گا کہ اگر اس الیکشن میں ہارنے والے کسی امیدوار کے پاس کسی بے قاعدگی کا ثبوت ہو تو وہ الیکشن کمیشن میں اپیل کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اس ملک میں الیکشن ہارنے والے نے کب مانا ہے کہ وہ ہارا ہے ہمارے ہاں الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتنے والے افراد کی لاٹری نکل آ یا کرتی ہے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں اور سر کڑاہی میں جو سیاسی پارٹی حکومت بنانے کی خواہش رکھتی ہے وہ ان کی منت اور ترلے کرتی ہے کہ وہ اس میں شامل ہو جائیں ان کو وزارت کی پیشکش بھی کی جاتی ہے اور دیگر سیاسی مراعات کی بھی ‘مندرجہ بالا الیکشن میں بطور آزاد کامیاب ہونے والوں کی بھی اس لحاظ سے لاٹری نکلی ہے اسی لئے بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ آزاد امیدواروں کا انتخاب کوئی اچھی جمہوری روش نہیں ہے ‘ایک بات تمام سیاسی پارٹیاں اپنے پلے باندھ لیں کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے عوام کا سیاسی شعور حد درجہ بیدار ہے آپ سارے لوگوں کو کچھ عرصے تک تو ماموں بنا سکتے ہیں پرہمیشہ کے لئے ایسا نہیں کر سکتے ۔گلگت و بلتستان کے الیکشن کے ساتھ ساتھ اگر ذرا امریکی صدارتی الیکشن کی تازہ ترین صورت حال کا بھی ذکر ہو جائے تو کوہی مضائقہ نہیں مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ٹرمپ کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے ‘کتنی ستم ظریفی ہے کہ یا امریکہ نے جارج واشنگٹن ‘ابرام لنکن ،جیفرسن،روزویلٹ اور ائزن جیسے نابغے پیدا کئے اور یا پھر ٹرمپ جیسے اوسط ذہنی صلاحیتوں کے مالک ‘اب انگلستان میں بھی چرچل کے پائے کا کوئی لیڈر دکھائی نہیں دے رہا اور نہ فرانس میں ڈیگال کے مرتبہ کا کوئی رہنما نظر آ رہاہے ‘چین میں بھی چراغ لے کر ڈھونڈ و تو ماو¿زے تنگ اور چو این لائی جیسا حکمران نہیں ملتا اب خمینی جیسا دوراندیش لیڈر کہاں ملے گا اب کاستروو اور شمالی ویتنام کا ہن چن من جیسا لیڈر کوئی کہاں تلاش کرے ۔