جس کا کام اسی کو ساجھے

ملک کی سیاست میں آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ ایک طرف سے یہ آواز آرہی ہے کہ فلاں سے بات کے لئے تیار ہیں پہلے حکومت گھر جائے کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ فلاں سے بات ہو سکتی ہے مگر عوام کے سامنے کسی طرف سے‘ مختصر یہ کہ بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں ملک کا عام آدمی سخت تذبذب اور پریشانی کا شکار نظر آرہا ہے اس قسم کی باتیں کرنے والے تمام حضرات سے عوام کی درخواست ہے کہ وہ یہ احساس کریں کہ ہماری سرحدات پر چاروں طرف سے ہر دوسرے دن ہمارے ازلی دشمن کوئی نہ کوئی جارحانہ کاروائی ضرور کرتے ہیں جس میں ہماری بہادر افواج کے جواں سال مرد مجاہد سپاہی شہید ہو رہے اس طرح تو بچے بھی آ پس میں شوروغل نہیں مچاتے کہ جس طرح یہ مچا رہے ہیں اس طرح تو گلیوں میں کھیلنے والے بچے بھی غل غپاڑہ نہیں کرتے کہ جس طرح یہ لوگ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کوستے ہیں اس ملک کے عام آدمی کو اس بات پر فخر ہے کہ دنیا میں بالعموم اور مسلمان ممالک میں بالخصوص پاکستانی ہی ایک ایسا ملک ہے کہ جس کی افواج نظم وضبط اور قربانیوں کی کوئی مثال موجود نہیں۔ خدارا اپنی سیاست میں اداروں کو نشانہ نہ بنائیں۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں دونو ں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کیا آئین پاکستان کے مطابق ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان پر انہوں نے کما حقہ عمل درآمد کیا بھی ہے یا نہیں۔ کیا 1973 کے آئین جس کی یہ لوگ روزانہ گردان کرتے ہیں اس میں یہ نہیں درج کہ عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے یہ بنیادی ضروریات بھلا کیا ہیں؟کیا ان میں روٹی کپڑا مکان ٹرانسپورٹ صحت عامہ کی سہولیات تعلیم صاف ستھرے پانی کی فراہمی وغیرہ وغیرہ شامل نہیں اس ضمن میں اگر ماضی میں ٹھوس بنیادوں پر اخلاص کےساتھ اس ملک کے حکمرانوں نے کام کیا ہوتااور اپنے اقتدار کو اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے کےلئے استعمال نہ کیا ہوتا تو کیا اس ملک کے غریب عوام کی یہ حالت زار ہوتی جو آج ہمیں نظر آ رہی ہے ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس طرح کے لوگ ملک میں برسرِ اقتدار رہے ہیں وہی بار بار بھیس بدل بدل کر مختلف رنگوں میں ایوان اقتدار میںبراجمان ہوجاتے ہیں اور ہر مرتبہ عوام ان کے جھانسے میں آکر ان کو اپنے سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ خدا لگتی یہ ہے کہ ہمارے اکثر حکمرانوں نے آئین پاکستان کے اندر ان پر جو ذمہ داریاں عاید کی گئی ہیں انہیں پورا کرنے میں نہایت ہی غفلت اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے جس کا پھر منطقی نتیجہ وہی نکلنا تھا کہ جس کا ہمیں آج کل سامنا ہے پارلیمنٹ میں نہ کسی حکومت وقت اور نہ حزب اختلاف نے عوام کی امنگوں کو سامنے رکھ کر اپنا اپنا فرض نبھایا اگر بعض امور میں انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا بھی تو اس میں ان کا کوئی اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا اس میں کبھی بھی ان لوگوں کا خیال نہ رکھا کہ جن کا ووٹ لے کر وہ پارلیمینٹ کا ممبر بنے تھے کسی حکومت نے اپنے آپ کو حکومت سمجھ کر اپنا کردار نبھایا اور نہ اپوزیشن نے اپنی ذمہ داریوں کا خیال کیا ۔پر اب پرانی باتوں پر رونے دھونے کا کیا فائدہ اب پچھتاوے کیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اگر تو یار لوگوں نے اس ملک میں واقعی پارلیمانی جمہوریت کو چلانا ہے تو اس صورت میں انہیں اس کے تقاضے پورا کرنے ہوں گے حکومت وقت کو آئین پاکستان کی تمام شقوں پر من و عن عمل کرنا ہوگا اسی طرح پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بھی اپنی حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا نا ہوں گی۔