انتخابی اصلاحات

 انتخابی اصلاحات لانے کے لئے عمران خان کی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت ایک نہایت ہی صائب قدم ہے ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ملک میں ایسا انتخابی نظام ہونا چاہئے کہ آئندہ جو بھی الیکشن ہارے وہ الیکشن کے نتائج کو بغیر کسی چوں چراں کے تسلیم کرے دنیا بھر میں جہاں بھی الیکٹرونک ووٹنگ کا نظام رائج ہے وہاں تو کبھی بھی ہارنے والی پارٹی یہ شور و غوغا نہیں کرتی کہ الیکشن میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے اگر ہم بھی الیکٹرونک ووٹنگ کے نظام کو وطن عزیز میں نافذ کر دیں تو کیا قباحت ہے؟اسی طرح سینیٹ کے الیکشن میں خفیہ ووٹنگ balloting کا کوئی جواز نہیں وہاں الیکشن کو شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانا چاہئے ماضی میں سینٹ کے الیکشن میںاکثر و بیشتر سینٹ کی سیٹ حاصل کرنے کے خواہش مند حضرات نے بھاری رقم ادا کر کے سینٹ کی سیٹ حاصل کی ہے اور چونکہ ووٹنگ کا عمل خفیہ رکھا جاتا ہے لہٰذا نہ ووٹ بیچنے والے کا پتہ چلتا ہے اور نہ ووٹ خریدنے والے کا ‘اگر وہاں بھی شو آف ہینڈز کا نظام قائم کردیا جائے تو سینٹ کے الیکشن میں کافی حد تک شفافیت پیدا ہوسکتی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن واقعی اس ملک میں الیکشن کے عمل کو شفاف اور صحیح معنوں میں آزادانہ کرنا چاہتی ہیں تو انہیں فورا ًسے پیشتر پارلیمنٹ میں آپس میں سر جوڑ کر ضروری ترامیم پیش کرکے الیکشن کے قوانین میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی اس معاملے میں اعتراض برائے اعتراض کی پالیسی ترک کرنی ہوگی قوم کی نظر سیاسی لیڈروں کے طرز عمل پر ہے اور وہ باریک بینی سے دیکھ رہی ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی پارٹیاں آئندہ الیکشن کو مزید شفاف بنانے کے لئے کیا کرتی ہیں کسی اچھے کام میں روڑے اٹکانے کا مطلب یہ ہو گا کہ روڑہ اٹکانے والے انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے اور وہ اس لئے کہ ان سے ان کی عوام میں مقبولیت کا پول کھل سکتا ہے ‘ پارلیمانی نظام جمہوریت میں یہ جو بعض افراد آزاد امیدوارکی حیثیت سے الیکشن لڑتے ہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بعد میں وہ اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لئے ایک اچھی موٹی بولی لگواتے ہیں اور جو سیاسی پارٹی ان کو سب سے زیادہ مالی اور سیاسی مفادات دینے کا وعدہ کرتی ہے تو وہ پھر اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں اس لئے کئی سیاسی مبصرین کی نظر میں کسی کو بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے یا تو وہ اپنی من پسند سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے اور اگر وہ کسی سیاسی پارٹی کے منشور کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا تو پھر اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی بناکر الیکشن کے اکھاڑے میں اتر سکتاہے ‘ہر سیاسی پارٹی کے اندر جو انٹرا پارٹی الیکشن ہوتا ہے اس میں بھی بنیادی تبدیلیاں کرنے کی ازحد ضرورت ہے‘یہ تو اب ہمارے ارکان پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اس معاملے میں مغز ماری کرکے ایک ایسا راستہ نکالیں اور اس کو پھر قانونی شکل دیں تاکہ اس ملک سے موروثی سیاست کا قلع قمع ہو سکے ‘اسی طرح جو دوسری اہم بات غور طلب ہے اس کا تعلق سیاسی پارٹیوں کے فنڈز کے ساتھ ہے اس پر گہری نظر رکھنے کے لئے ایک فول پروف میکنزم بنایا جائے اور پھر اسے قانونی شکل دی جائے کہ جس سے پتہ چل سکے کہ سیاسی پارٹیاں کس طریقے سے اپنا پارٹی فنڈ قائم کرتی ہیں اور پھر ان میں جو افراد پیسے جمع کرتے رہتے ہیں وہ کون ہیں انہوں نے کہیں بینکوں سے قرضے تو نہیں لئے اور کیا وہ انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں ‘کیا وہ کبھی کسی جرم میں ملوث تو نہیں رہے جب تک اس قسم کی دور رس بنیادی ترامیم نہیں لائی جائیں گی تب تک صحیح لوگوں کا سیاست کے میدان میں آنا نا ممکن ہو گا۔