ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے عوام کے دل کی بات کہی ہے کہ تمام ایم این ایز کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کو سامنے لانا اور ان سے سورس پوچھنا کرپشن ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ہم البتہ اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے کہ صرف ایم این ایز سے ہی ان کی آمدنی کی سورس کا پتہ کیا جائے معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اس فرد سے پوچھا جائے کہ جس کی مالی حالت غیر معمولی طور پر بہتر ہوئی ہے۔ اگر اس قسم کے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے تو بات ہی ختم ہو جانے اگر کثیرالمنزلہ پلازے بنانے والوں سے پوچھنا شروع کر دیا جائے کہ بھائی تم نے یہ رقم کیسے اور کہاں سے بنائی ہے کہ جس سے تم یہ پلازے تعمیر کر رہے ہو؛اگر ان لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کر دی جانے کہ جو کئی کئی کنالوں پر محیط بنگلوں میں رہتے ہیں بی ایم ڈبلیو گاڑیوں میں گھومتے ہیں سال میں کئی کئی مرتبہ سیر سپاٹے کے واسطے یورپ امریکا یا عرب امارات جاتے ہیں جن کی آ ل اولاد ملک کے اندر مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھتی ہے کہ تم ذرا اپنی انکم کی سورس تو بتاو¿ کیا تم اپنا ہنر غریب عوام پر کہیں بہت مہنگا تو نہیں بیچ رہے اور اپنی آ مدنی سے بہت کم رقم ڈکلیر کر کے انکم ٹیکس کی ادائیگی میں ڈنڈی تو نہیں ما ر رہے تو ان پردہ نشینوں کے چہرے بے نقاب ہو جائیں کہ جنہوں نے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاہے‘ اس جملہ معترضہ کے بعد ہم اس ملک میں اخلاقیات کے فقدان کا ذکر کریں گے آپ روزانہ کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے گا آپ کو پڑھنے کے لئے ایسی خبریں ملیں گی جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اخلاقیات کے فقدان کے ساتھ تعلق ہے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے حال ہی میں اپنے کھلے خط میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کی عدالتوں میں بعض وکلاءکا رویہ عدالتی قواعد کے مطابق نہیں ہوتا۔اس ضمن میں ایک دوسری نہایت ہی اہم بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کا تعلق عدلیہ کے ساتھ براہ راست ہے اور جو فوری طور پر غور طلب ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتیں سٹے آرڈر یعنی حکم امتناعی دیا کرتی ہیں کہ یہ ان کا قانونی حق ہے ہم نے البتہ پرانے وکلا سے سنا ہے کہ سٹے آ ڈر کا دورانیہ زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہئے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر اوقات سٹے آرڈر کا دورانیہ مہینوں کے بجائے سالوں پر محیط ہو جاتا ہے جس سے اکثر ظالم لوگ ناجائز فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور کئی فوری نوعیت کے سرکاری ترقیاتی کاموں کا حرج بھی ہو جاتاہے جس سے اگر نقصان ہوتا ہے تو ٹیکس دہندگان کا ہی ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے وکلا اور عدلیہ کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی قانونی رستہ نکالیں تاکہ انصاف کے حصول میں کوہی تاخیر نہ ہو‘ یہ سٹے آرڈرز کی طوالت کا مسئلہ کوئی نیا نہیں یہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے چل رہا ہے اور مقام افسوس ہے کہ ابھی تک کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے نے صدق دل سے اسے ہنگامی طور پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور اس ضمن میں کوئی آئینی اور قانونی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے ہزاروں دیوانی مقدمات عدالتوں میں زیر التواہیں اور مختلف مقدمات میں ملوث فریقین عدالتوں کے چکر لگاتے لگا رہے ہیں اور انہیں بر وقت ریلیف نہیں مل رہا ۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں عدلیہ بھی شامل ہے تاکہ یہاں پر تیز تر انصاف کا حصول ممکن ہو جائے اور اس ضمن میں اگر سٹاف کی کمی رکاوٹ ہے تو اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے حکومت کو بھرپور اقدامات کرنے چاہئے تاکہ جن مسائل کا سائلین کو سامنا ہے وہ حل ہو جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہونگے کیونکہ جن معاشروں میں انصاف کا حصول یقینی ہو وہاں تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔