واقفان حل کا کہنا ہے کہ ہمیں اس برس23ارب ڈالرز کی جو حیران کن ترسیلات ہوئی ہیں ان پر خوش ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں مقیم تارکین وطن اپنا اسباب سمیٹ رہے ہیں اور اس کی یافت سے ہمارے عروق مردہ میں سرخی کی جھلک نظرآئی ہے یہ بات کافی وزنی نظر آتی ہے اور وہ اس لئے کہ چونکہ مشرق وسطیٰ کی معدنی تیل کی معیشت آخری سانسوں پر ہے اور خلیجی ممالک اب شاید مزید ہماری میزبانی نہ کر سکیں لہٰذا خدشہ اس بات کا ہے کہ بہت جلد40 لاکھ کے قریب خلیج میں مقیم ہماری لیبر فورس اپنے وطن کا رخ کرنے والی ہے اس جملہ معترضہ کے بعد اب ہم آتے ہیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ان دونوں ممالک کی حکومتوں کی کوشش کی طرف شنید ہے کہ افغانستان کے صدر عنقریب پاکستان کا دورہ کرینگے یہ تو آپ جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد وسطیٰ ایشیا کے کئی ممالک آزاد ہوئے ہیں یہ ممالک قدرتی معدنی وسائل سے مالامال ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کیلئے پاکستان اور افغانستان راہداری کی سہولتیں فراہم کریں یوں تو ہوائی رابطہ موجود ہے پر وہ ان کو بڑا مہنگا پڑتا ہے اگر پاکستان اور افغانستان ان کو ٹرانزٹ یعنی راہداری کی سہولت فراہم کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف وسطی ایشیا کے ممالک کو بے حد مالی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان بھی اس سے کافی مالی فائدہ اٹھا سکتے ہیں یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اگر آپ تاریخ پرایک نظر دوڑائیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان اور افغانستان مسلم ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے عوام کے فطری تعلقات جتنے گہرے اور ہر حال میں مسلسل رہے ہیں ان کی حکومتوں کے تعلقات ماضی میں اتنے ہی ٹھیک نہیں رہے ہیں ‘واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ جب افغان حکمران سردار داﺅد نے صحیح معنوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تو یہ بات نہ ماسکو کو اچھی لگی اور نہ ہی نئی دہلی کو اور انہوں نے محلاتی سازشوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا وہ اس بات پر بہت خفا تھے کہ کیوں سردار داﺅد نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں ان کا فقید المثال استقبال بھی کیا گیا ان ممالک کے حکمرانوں کے کان میں یہ بات ڈال دی گئی کہ اس وقت پاکستان اور ایران کے حکمران سردار داﺅد کے ساتھ مل کر اس نظریئے پر گفت و شنید شروع کرنے والے ہیں کہ کیوں نہ ان تینوں ممالک کی ایک کنفیڈریشن بنادی جائے اب ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے دشمن ممالک کب چاہتے تھے کہ یہ تین ممالک اکٹھے ہو جائیں اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا ایک حصہ ہے ‘1979ءسے افغانستان میں جو بیرونی فوجی مداخلت شروع ہوئی ہے وہ ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لیتی چالیس سال کا عرصہ ایک بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے اس میں سوویت فوجیوں نے اور بعد میں امریکی فوجیوں نے ہمارے ہمسایہ ملک کو تاراج کیا ہے اور اس کا شاید افغانستان پر اتنا اثر نہ پڑا ہو جتنا کہ وطن عزیز پر پڑا ہے ہمیں اگر ایک طرف ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے تو دوسری طرف اربوں روپے کا مالی نقصان بھی ملا ہے ہمارے مشترکہ دشمن نے کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے صدیوں پرانے برادرانہ تعلقات کو زک پہنچائے اسلئے آج وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے موجودہ حکمران ان دونوں ملکوں کو قریب تر لانے کی کوشش کریں اور مثبت سیاسی عمل کے ذریعے علاقائی تعاون بڑھانے پر زور دیں یہ جو موجودہ پاک افغان سفارت کاروں اور حکمرانوں کے درمیان روابط کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے کیوںنہ یہ دونوںممالک ایک ہی پرچم کے تلے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں تھامتے ۔