اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف سے شرائط پر دوبارہ مذاکرات جاری ہے، آئی ایم ایف بجلی کے نرخ اور ٹیکسز بڑھانا چاہتا ہے۔
ہم نے واضح طورپرکہہ دیا ہے ٹیکس اوربجلی ٹیرف نہیں بڑھا سکتے، جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے شرائط پر دوبارہ مذاکرات کررہے ہیں، آئی ایم ایف بجلی کے نرخ اورٹیکسزبڑھانا چاہتا ہے، ہم بجلی کے نرخ اور ٹیکسز نہیں بڑھا رہے، آئی ایم ایف کو واضح طورپرکہہ دیا ٹیکس اورٹیرف نہیں بڑھاسکتے، ہم غریب اور تنخواہ دارطبقے پرمزید بوجھ نہیں ڈالیں گے، بعض شعبوں میں اقدامات کردیے ہیں۔
شوکت ترین نے کہا آئی ایم ایف کوگروتھ کیلئے متبادل پلان کابتادیاگیاہے، آئی ایم ایف کی شرط ٹیکس بڑھانے کی بجائے دوسرے طریقے سے پوری کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ادارہ شماریات کو آزاد اورخود مختار بنانے کے اقدامات کیے ہیں،مہنگائی کے حوالے سے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اگلے سال کے بجٹ میں آپ کومہنگائی میں کمی نظرآجائے گی، اگلے سال بڑی تبدیلی آئے گی،ایف بی آر کی ہراسمنٹ ختم کردینی ہے، کوئی ایف بی آرکا آدمی کسی کو نوٹس نہیں دے گا،
انھوں نے کہا کہ تھرڈپارٹی سے صرف3سے 4فیصد افراد کا آڈٹ ہوگا، آڈٹ کرانے پر جو پکڑا جائے اسے ٹانگ دیں، جوٹیکس نہیں دے رہا اور ہراسمنٹ کررہا ہے، وہ غریب عوام پربوجھ ہے اسے جیل بھجوائیں گے، ایف بی آر کا افسرکسی ٹیکس دہندہ کونوٹس نہیں دے گا،وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ کا معاملہ ختم ہو جائے گا، سرپلس بجلی ہے، کے الیکٹرک کے معاملات بہتر ہوئے ہیں اور نئے معاہدے بھی ہورہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاور سیکٹر ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاور سیکٹر ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، سی پیک میں خصوصی اقتصادی زونز بناچکے ہیں، انہوں نے کہاکہ جب تک ڈالر نہیں کمائیں گے قرضے کیسے اتریں گے، ہم نے اپنے معاشرے کو سوشل سیفٹی نیٹ ورک دینا ہے،شوکت ترین نے بتایا کہ برآمدات میں نئے راستے تلاش کریں گے،آئی ٹی 50فیصد گروتھ کررہی ہے، اس کو 100فیصد پر لے جائیں گے،ہمیں اپنے ہاں ڈالر کے ان فلو کو بڑھانا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے برآمدات کو بہتر کرنا ہے،روایتی برآمدات کے علاوہ بھی دیگر مصنوعات کی برآمدات بڑھائیں گے،ہمیں برآمدات اور براہ راست سرمایہ کاری بڑھانی ہے، ہماری کوشش ہے کہ گردشی قرضہ ختم ہو جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ٹیکس کلیکشن تخمینے سے بڑھنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہاکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس سے 18 فیصد زائد ہے حالانکہ مالی سال کے آغاز میں کسی کو اتنا بہتر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اسی اندازے کی بنیاد پر اگلے سال کے بجٹ میں یہ تخمینہ 58 کھرب روپے رکھا ہے، پرائمری بیلنس کو سرپلس میں لے کر چلے گئے ہیں جو 12 سال میں پہلی مرتبہ ہوا۔وفاقی وزیر شوکت ترین نے کہاہے کہ مہنگائی کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ مہنگائی کی بات ہوتی ہے لیکن ہم خالصتاً اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے۔وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا خام تیل کی قیمت میں 119 فیصد اضافہ ہوا جس کے اثرات ہم نے عوام تک پہنچنے نہیں دیے اور گزشتہ سوا ماہ سے بالکل بھی تیل کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جارہا، مجموعی طور پر ہمارے ہاں تیل کی قیمت میں 32 فیصد اضافہ ہوا یعنی 86 فیصد ہم نے جذب کرلیا۔
وزیر خزانہ کے مطابق عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں 29 فیصد اضافہ ہوا تو ہمیں بھی 29 فیصد ہی بڑھانی پڑی اس میں فرق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ ابھی بھی زیادہ ہیں جس کا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور اس کا حل اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے جس پر بجٹ میں بہت زور دیا گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم دوبارہ نیٹ ایکسپورٹر بنیں کیوں کہ اپنی پیداوار کی قیمتیں ہم کنٹرول کرسکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہول سیل مارکیٹ میں لوگ بہت زیادہ مارجن بنا رہے ہیں جسے ہم ختم کرنا چاہتے ہیں ہم زرعی شعبے اشیائے خورونوش کے گودام اور کولڈ اسٹوریج لارہے ہیں جس سے آڑھتیوں سے جان چھوٹے گی۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہماری اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں سب سے بہترین ہے، شرح سود میں اضافہ، ایکسچینج ریٹ بڑھنے سے قرضوں کی ادائیگیاں 15 سو ارب سے بڑھ کر 3 ہزار ارب روپے تک جا پہنچیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہاہے کہ استحکام کے بجائے اب نمو کی جانب بڑھنا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ریٹنگ اداروں موڈیز، فچ وغیرہ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی یہ اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیاب ہوا اور اب ہمیں معاشی نمو کی جانب جانا ہے۔انہوں نے کہاکہ کب تک ہم معیشت مستحکم کرنے میں لگے رہیں گے معیشت کا پہیہ تیز چلا کر جب شرح نمو 7 سے 8 فیصد پر لے جائیں گے اسی وقت نوجوان نسل کو درکار روزگار فراہم کرسکیں گے۔انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں سب سے بڑی چیز یہ ہوگی کہ ہم نے غریب کا خیال رکھنا ہے-