جمہوریت کے کئی روپ ہیں۔ اِس میں براہ راست‘ نمائندہ‘ قانونی اور تنبیہی جمہوریتیں شامل ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں اِن کے اشتراک عمل سے بھی جمہوریتیں تشکیل پائی ہیں۔ جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ اِس کسی ایک ڈھانچے میں قید نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اِسے حسب ضرورت مختلف اشکال میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں براہ راست (پارلیمانی) جمہوریت رائج ہے۔ اِس نظام میں عوام کے منتخب نمائندوں اور حکومت کی کارکردگی کا احتساب انتخابات کی صورت عوام کرتے ہیں جبکہ جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کیلئے پارلیمانی اداروں اور الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط وضع ہیں‘ جن کے ذریعے جمہوریت کو اُس کی پٹڑی پر رواں دواں رکھا جاتا ہے۔ یہ طرز جمہوریت درست ہے یا نہیں اور اِس میں کیا خامیاں یا سقم ہیں جن سے غلط فائدہ اُٹھایا جاتا ہے‘ یہ سب غوروخوض کے مرحلے بھی اُنہوں نے ہی طے کرنے ہیں جو اِس پارلیمانی طرز حکمرانی کا حصہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سب سے کم اصلاحات اگر کسی ایک شعبے میں دیکھنے کو ملتی ہیں تو وہ پارلیمانی نظم و ضبط ہے۔پندرہ جون دوہزار اکیس کے روز قومی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خطاب کرنا تھا لیکن اِس موقع پر سیاسی اختلاف رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ضرورت سے زیادہ احتجاج کیا اور یہ احتجاج ہاتھا پائی اور ہلڑ بازی سے ہوتا ہوا اِس انداز میں پرتشدد ہوا کہ ایک خاتون رکن اسمبلی کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں لیکن حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے پارلیمینٹیرنز کے پاس اپنے اپنے دفاع میں کہنے کو بہت کچھ ہے اور کسی ایک بھی فریق کے دلائل کمزور نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’پندرہ جون‘ کے روز قومی اسمبلی میں جو کچھ بھی رونما ہوا اُس کا سب سے بدنما پہلو یہ ہے کہ کسی بھی فریق (حزب اقتدار و حزب اختلاف کے اراکین) نے سپیکر کی ایک نہیں سنی جو بار بار ’ہاؤس کو اِن آرڈر‘ کرنے کے اعلانات کرتے رہے اور اِس مقصد کیلئے قومی اسمبلی کے خصوصی باوردی سیکورٹی اہلکاروں کو بھی طلب کیا گیا۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ قومی اسمبلی کا کوئی بھی اجلاس ’ہنگامہ آرائی‘ کی نذر ہوا ہے لیکن ’پندرہ جون‘ کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آئے۔ خواتین کی موجودگی میں ایک دوسرے سے بدکلامی کی گئی۔ غیر پارلیمانی الفاظ کا بلند آواز میں استعمال کیا گیا اور وہ بجٹ جو قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے اُس دستاویز کی بھاری بھرکم (ضخیم) نقول (کاپیاں) ایک دوسرے کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کی گئی! سوشل میڈیا کے زمانے میں قومی اسمبلی ایوان کی کاروائی سے متعلق مختلف دورانئے کے ویڈیو کلپس آن کی آن پوری دنیا میں پھیل (وائرل ہو) گئے اور اِس سے کس قدر جگ ہنسائی ہوئی‘ اِسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے! قومی اسمبلی ہنگامہ آرائی سے متعلق اسپیکر اسد قیصر کا ٹوئیٹر پیغام تمام تر صورتحال کا نچوڑ پیش کرتا ہے جنہوں نے کہا کہ ”(آج) اسمبلی میں (رونما) ہونے والے واقعات مایوس کن ہیں۔ واقعے کی مکمل تحقیقات کروائی جائیں گی اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والے ارکان کو قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاسوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔“ لمحہئ فکریہ ہے کہ بجٹ پیش ہونے کے دن (گیارہ جون) سے قومی اسمبلی ایوان کے اندر ہنگامہ آرائی شروع ہوئی مگر پندرہ جون کے اجلاس میں جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو سپیکر قومی اسمبلی کو کم از کم تین بار ایوان کی کاروائی ملتوی کرنا پڑی اور پارلیمان کے اندر سکیورٹی پر مامور ”سارجنٹ ایٹ آرمز“ نے ایوان میں امن قائم کرنے اور نظم و ضبط بحال کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا میں اڑتی بجٹ کی ایک کاپی لگنے سے ”سارجنٹ ایٹ آرمز“ دستے کا ایک رکن بھی معمولی زخمی ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ ”سارجنٹ ایٹ آرمز“ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود اُن خصوصی اہلکاروں کو کہا جاتا ہے جو ہنگامہ آرائی یا کسی بھی قسم کی ناخوشگوار صورتحال پر قابو پانے کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ یہ دستہ سپیکر کے حکم پر کسی رکن قومی اسمبلی کو زبردستی ایوان سے باہر بھی نکال سکتے ہیں سپیکر نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں (حزب اقتدار و حزب اختلاف کے اراکین کے خلاف) صرف تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ’سارجنٹ ایٹ آرمز‘ ایوان میں سکیورٹی سیل کا حصہ ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سکیورٹی سیل کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کے ارکان سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو ان کے آفس سے قومی اسمبلی و سینٹ کے ہال تک اور واپسی میں ان کے ساتھ رہیں۔ مہمانوں کی گیلری میں موجود افراد‘ اجلاسوں کے دوران کمیٹی رومز پر نظر رکھنا اور سینیٹ چیئرمین یا قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حکم پر ایوان کے ہال میں نظم و ضبط قائم کرنا اِسی دستے کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے کیونکہ قواعد کے مطابق پولیس یا فوج پارلیمان کے اندر داخل نہیں ہو سکتی۔ قومی اسمبلی قواعد کے مطابق اسپیکر چاہے توہنگامہ آرائی اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والے کسی ایک یا زیادہ اراکین کی رکنیت بیک جنبش قلم معطل کر سکتا ہے۔ وہ سبھی عوامی حلقے جو ’پندرہ جون‘ کی ہنگامہ آرائی پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں جان لیں کہ قومی اسمبلی کا تعلق اندرونی قواعد و ضوابط سے ہی ہوتا ہے جو اجلاس کے موقع پر اسپیکر جاری کر دیتا ہے اور ان کے مطابق ان قواعد کا براہ راست تعلق آئین و قانون سے نہیں ہوتا۔ اسپیکر کو کسی بھی رکن کے خلاف کاروائی عمل میں لانے کیلئے مشروط اختیارات حاصل ہیں مگر یہ اختیارات کبھی کبھار ہی استعمال میں لائے جاتے ہیں‘ سپیکر کے علاوہ ایوان کی رولز آف بزنس کمیٹی بھی ہوتی ہے جو قواعد بناتی ہے اور اِن قواعد کی ایوان سے منظوری کے بعد تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ ایوان کو قواعد کے مطابق چلانے کیلئے سپیکر کو ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین سے ’بیک ڈور‘ رابطے رکھنے پڑتے ہیں‘ جو قطعی آسان نہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر شاکر فہیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام