کاروباری اجارہ داری۔۔۔۔۔۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق‘ تحقیق کار امین حسین‘ ڈاکٹر ندیم اور اُن کے ساتھیوں نے ایک مقالہ تحریر کیا ہے جس کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر کل کتنے خاندان کنٹرول کر رہے ہیں۔ محققین نے اس مقالے میں سرکاری اداروں سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں سٹاک مارکیٹ کی سال دوہزاراٹھارہ کی ساخت کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ چند بااثر کاروباری ادارے کس طرح پورے مالیاتی نظام کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کارپوریٹ گورننس کا ضابطہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو پابند کرتا ہے کہ وہ ٹرسٹی کی حیثیت سے تمام سرمایہ کاروں کے مفادات کی حفاظت کریں خواہ وہ بڑے سرمایہ کار ہوں یا چھوٹے لیکن ان ڈائریکٹرز کا تعلق چونکہ سپانسر خاندانوں (بڑے کاروباری اداروں) سے ہوتا ہے اور وہ بیک وقت مختلف بورڈز میں خدمات انجام دیتے ہیں‘ اس لئے وہ چھوٹے اور اقلیتی سرمایہ کاروں کی بجائے سپانسرز کے مفادات کا زیادہ تحفظ کرتے ہیں اور اس طرح کاروبار پر بااثر خاندانوں (طبقات) کی اجارہ داری برقرار رہتی ہے۔اِس تحقیق کے نتائج نصف صدی پرانے ایک انکشاف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ملک کے پہلے فوجی حکمراں ایوب خان کے دور حکومت کے دس برس مکمل ہونے پر جب ان کے دس سالہ عرصہئ اقتدار کا جشن ’اصلاحات اور ترقی کا عظیم عشرہ‘ ملک گیر سطح پر منایا گیا تو اس کا اختتام ’دھماکہ خیز انکشاف‘ پر ہوا جس سے متعلق الطاف گوہر کی ”ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال“ نامی کتاب میں ذکر موجود ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ ”(ایک موقع پر) حکومت کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے انکشاف کیا کہ قومی معیشت اس وقت 22 خاندانوں کی گرفت میں ہے۔ یہ انکشاف قومی زندگی میں ایک دھماکے کی طرح سنا گیا اور سیاسی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے‘ جن کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ یہ معاملہ حکومت مخالف تحریک میں بنیادی ایجنڈے کی حیثیت اختیار کر گیا۔“ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی حالیہ تحقیق اسی تسلسل کی کہانی بیان کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پچاس برس کے دوران ملک کے کاروباری منظرنامے پر 9 مزید خاندانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ پاءئڈ کی مذکورہ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ چھوٹی ہے جس میں آئی پی اوز بھی بہت کم ہیں اور مارکیٹ غیر مستحکم ہے۔ اس تحقیق سے اُن تصورات کی تصدیق ہوئی ہے اور یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سٹاک مارکیٹ پر 31 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچاس برس پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے جن بائیس خاندانوں کی اجارہ داری کا انکشاف کیا تھا‘ وہی رجحان اب بڑھ کر اکتیس خاندانوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور حصص (سٹاک) مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی ان ہی کے ہاتھوں میں محدود ہے۔ پاکستان میں بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دباؤ میں بنائی جاتی ہیں اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کر کے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ افراد کے معاشی مفادات کے خلاف چند طبقات کا ایک گٹھ جوڑ ہے۔ یہ گروہ معیشت کے مختلف شعبوں کے بااثر افراد پر مشتمل ہے جس میں بڑے تاجر‘ درآمد و برآمد کنندگان‘ ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ‘ اقتصادی ٹیکنوکریٹس اور نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے مول قومی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے شامل ہیں۔سٹاک مارکیٹ پر چونکہ چند درجن بڑے بروکرز کی اجارہ داری ہوتی ہے‘ اس لئے یہ لوگ وقتاً فوقتاً قیمتیں بڑھا کر یا گھٹا کر بحران پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خسارے کا شکار ہو کر چھوٹے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں پندرہ مارچ دوہزارپانچ کی مثال موجود ہے جب چند ہفتوں کے دوران ہی کراچی سٹاک ایکسچینج کے حصص کی مجموعی مالیت میں تقریباً 800ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ جس کے بارے میں تحقیق کے لئے ’ٹاسک فورس‘ بنائی گئی اور بعدازاں معلوم ہوا کہ اس بحران کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک بروکرز پر عائد ہوتی ہے لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کو سزا سے بچانے کیلئے رپورٹ کو دبا دیا گیا اور تقریباً ایک سال کے بعد اس کی تحقیقات ایک امریکی فرانزک کمپنی کے سپرد کر دی گئیں‘ لیکن اس کا دائرہ کار ہی اتنا محدود کر دیا گیا کہ وہ کسی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ بحران کے ذمہ داران صاف بچ نکلے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ دوہزارپانچ کا مذکورہ بحران آخری نہیں تھا بلکہ اس کے بعد بھی کئی بحران آئے لیکن اس کے ذمہ داران ہمیشہ کی طرح بچ نکلے کیونکہ ان بروکرز کا شمار معاشرے کے طاقتور ترین طبقات میں ہوتا تھا۔اُنیس سو ترانوے سے اب تک طاقت ور طبقات کو ’ٹیکس ایمینسٹی (ٹیکس معافی)‘ دی جا چکی ہے جس کی مدد سے یہ لوگ معمولی ٹیکس ادا کر کے کالا دھن اور لوٹی ہوئی دولت کو سفید کر چکے ہیں اور اِس قسم کی ٹیکس معافی پاکستان میں ایسا معمول بن چکا ہے‘ کہ ہر حکومت اِس پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ کورونا بحران کے دوران پاکستانی حکمرانوں نے کورونا متاثرین کی بحالی کیلئے فیصلے کرنے کی بجائے تمام تر فیصلے طاقتور طبقات کے مفاد میں کئے‘ جس سے معیشت کی نمو کے راستے بند ہو گئے۔ ماہرین معیشت کے مطابق پاکستانی معیشت کا یہی وہ بنیادی عارضہ ہے جس کی وجہ سے عوام کی حالت ِزار ویسی کی ویسی ہے یا ان کا معیار زندگی ہر دن پست سے پست ہوتا چلا جا رہا ہے اور قومی آمدنی کا بڑا حصہ ایک محدود طبقے کے اثاثوں میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حصص کے کاروبار میں اجارہ داری کا رجحان غالب ہے۔ نوے کی دہائی میں اگر یہ رجحان ستر سے پچتھہر فیصد تھا تو اب یہ بڑھ کر پچانوے فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ حال ہی میں چینی اور سیمنٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیدا ہونے والا بحران اسی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ اسی قسم کے حالات ہیں جن کی روشنی میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سٹاک مارکیٹ کی سرگرمیاں قومی معیشت کی درست تصویر پیش نہیں کرتیں اُور بیرون سرمایہ کار مختصر وقت کے لئے آتے اور چلے جاتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد میر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)