کورونا ویکسین تعطل۔۔۔۔

کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ اور حفاظتی تدبیر کے طور پر لگائی جانیوالی ویکسین کی مانگ میں اچانک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت کی اطلاعات سولہ جون سے مل رہی ہیں تاہم حکومتی فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ اِس وقتی کمی پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔ وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ”ویکسین کی سپلائی بیس جون تک پہنچ جائے گی جس کے بعد اکیس جون سے پورے ملک میں کورونا ویکسین دستیاب ہو جائے گی۔“ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والی اس کھیپ سے بارہ سے تیرہ لاکھ تک کی آبادی کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔ اس سے حکومت کو موجودہ کمی کو پوراکرنے میں مدد ملے گی اور جون کے اواخر اور جولائی کے وسط تک کافی لوگوں کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے تقریباً ایک ارب روپے کی اضافی ویکسین مختلف ممالک سے منگوانے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ ان میں سائنو فارم‘ سائنو ویک‘ کین سائنو‘ فائزر اور سپوتنک شامل ہیں اور یہ ویکسینز رواں ماہ جون کے آخری دس دن میں پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔ علاوہ ازیں عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ویکسین پروگرام کوویکس کے ذریعے بھی جولائی تک ویکسین کی بارہ لاکھ خوراکیں پاکستان کو ملیں گی لیکن روس‘ چین اور فائزر کمپنی کے ساتھ ہونے والے حکومتی معاہدوں کی بدولت اگلے چند ماہ میں کورونا ویکسینز وافر مقدار میں دستیاب ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ تین طریقوں سے ویکسینیشن ہو رہی ہے ایک ہمسایہ ملک(چین) سے‘ دوسرا ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کی امداد کے ذریعے خریدی گئی ویکسین جبکہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس پروگرام کے تحت بھی ویکسین مل رہی ہیں۔ یہ ویکسین کوویکس کے گلوبل ویکسین پروگرام کے تحت یونیسیف کے ذریعے پہنچی تھی لیکن پھر ویکسین کی کلیئرنس اور رجسٹریشن پر محکمہئ صحت کی جانب سے سوال اٹھنے پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے جلد از جلد فائزر ویکسین کو رجسٹر کرانے کا عمل شروع کیا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ’کوویکس کے ویکسین بھیجنے سے مسئلہ نہیں لیکن جو پہلے ہوا ایسے واقعات کو نہ دہراتے ہوئے پاکستان کی کوشش ہے کہ نوے سے پچانوے فیصد ویکسین دیگر ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ طے شدہ معاہدوں کے ذریعے آئیں اور ہر روز تقریباً پانچ لاکھ تک خوراکیں (ویکسینز) دی جائیں۔سولہ اور سترہ جون کو پاکستان میں چار لاکھ ویکسین لگائی گئیں اور چین سے ویکسین کی کھیپ آنے میں دیر کی وجہ سے پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور سندھ پر اثر پڑا جہاں کے چند شہروں اور سینٹرز میں ویکسین کی کمی رہی۔ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ پہلے کے مقابلے میں ویکسین سینٹرز کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ ملک بھر میں اس وقت دو ہزار سے زیادہ ویکسینیشن سینٹرز ہیں اور ظاہر ہے کہ جب موجودہ اعداد و شمار سے تھوڑا بھی نمبر بڑھے گا تو ویکسین کی کمی بھی واقع ہو گی۔ سولہ جون کو جب شور برپا ہوا کہ ویکسین کی کمی ہو گئی ہے تو اس دن ملک بھر میں سوا چار لاکھ ویکسین لگ چکی تھیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے پھر سترہ جون کو بھی سوا سے ڈھائی لاکھ کے قریب ویکسین لگائی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ ویکسین خریدنے کا عمل صوبوں کے دائرہ کار میں آتا ہے تو کیا ہدف طے کرنے سے پہلے مزید ویکسین خریدنے کی تیاری کی گئی تھی؟ ویکسین خریدنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وفاقی اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں خود سے ویکسین خریدیں۔ چین کی حکومت براہ راست صوبائی حکومتوں کو ویکسین فروخت نہیں کرتیں۔ اِس سلسلے میں سندھ نے اپنے طور پر ایک کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ صوبائی حکومتوں کے پاس 2 راستے ہیں ایک تو یہ کہ وہ وفاقی حکومت کی معاونت سے کسی بین الاقومی کمپنی سے ویکسین خریدیں یا وفاقی حکومت کو ویکسین کا معاوضہ ادا کر دیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ کورونا ویکسین کی پوری دنیا میں مانگ (طلب) بڑھتی جارہی ہے تو اِس صورت میں مالی وسائل پہلے سے مختص نہیں کئے جا سکتے کہ حسب ضرورت ویکسین عالمی منڈی سے خریدی جا سکے۔ ویکسین کی کمی صرف وفاقی ہی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہے اور اِس سلسلے میں صوبے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت نے کورونا ویکسین خریدنے کے لئے عالمی معاہدے کر رکھے ہیں تو اِس بارے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی تشویش کو دور کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت آنے والے ماہ و سال میں مفت کورونا ویکسین دینے کے وعدے پر قائم ہے اور اِس سلسلے میں بار بار وضاحت کی جا رہی ہے کہ ویکسین کی کمی نہیں ہونے دی جائے گی۔ مختلف ممالک میں کورونا وبا کی نئی لہر کے باعث ویکسین کی کمی ہے اور ایسی صورت میں مقامی ادارے ’کورونا ویکسین‘ مقامی ضروریات کیلئے ترجیحاً  فروخت کرتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شمعریز رحمت۔ ترجمہ: ابواَلحسن امام)